میرے والد محترم کا انتقال 26 مئی 2023 کو ہوا تھا،مرحوم والد نے وراثت میں ایک دو منزلہ گھر،ایک دکان اپنی اور ایک پگڑی کی دکان چھوڑی ہے،ان دونوں دکانوں سے ہر مہینے 70 سے 75 ہزار مہینے کا کرایہ آتا ہےجو میری والدہ اور میرے بھائی لیتے ہیں،ہم دو بہنیں اور تین بھائی ہیں ،دو بھائیوں کی اچھی آمدنی بھی ہے،ہم دونوں بہنوں کی شادی والد کی زندگی میں ہوئی تھی، میری شادی 2012 کو ہوئی تھی،میرے شوہر کا اپنا کوئی مکان نہیں،12 سال سے ہم کرایہ کے مکان میں رہتے ہیں،مکان کے کرایہ اور دوسرے اخراجات میں میرا سارا زیور بک چکا ہے، میرے شوہر کی کوئی پکی نوکری ہے بلکہ پرائیویٹ سکول میں استاد ہے جس کی وجہ سے جون اور جولائی کے مہینے کی پوری تنخواہ بھی نہیں ملتی اور اکثر تو سکول والےسال پورا ہونے سے پہلے نکال دیتے ہیں،میرے شوہر کو پانچ سال سے شوگرکی بیماری ہے اور مجھے آٹھ سال سے ہائی بلڈ پریشر کی بیماری ہے جس کی وجہ سے سانس کا مسئلہ رہتا ہے،میرا سات سال کا ایک بیٹا ہے،اخراجات زیادہ اور آمدنی کم ہونے کی وجہ سے بچے کے سکول کی فیس بہت چڑھ گئی ہے۔
میرے والد کے انتقال کے بعد جب میں نے اپنے حالات سے تنگ آکر اپنی والدہ سے اپنا وراثت میں حق مانگاتو میری والدہ نے کہا کہ بڑ ے بھائی کی شادی ہونے دو پھر کچھ کرتے ہیں جب کہ میرے بڑے بھائی کی یہ چوتھی شادی تھی،اب جب کہ بھائی کی شادی کو بہت وقت گزر چکا ہےتو اب میری والدہ کا کہنا ہے کہ دوسرے بھائی کی شادی کے بعد کچھ کرتے ہیں،میرے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اپنا مسئلہ خود حل کرو جب کہ میں نے اخراجات پورے کرنے کے لیے اپنا بہت سارا سامان بھی بیچ دیا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ:
1.کیا میں اس وقت اپنے مرحوم والد کی وراثت کی حق دار ہوں یا نہیں؟اگر حق دار ہوں تو میں چاہتی ہوں کہ جب تک گھر والے مجھے میرے والد کی وراثت کا حصہ نہیں دیتے تب تک میرے گھر کا کرایہ میرے بھائی دیتے رہیں کیونکہ میرے والد نے اپنی زندگی میں مجھے کہا تھا کہ تم کو میرے بعد تمہاری ماں وراثت میں تمہارا حصہ دے گی جس سے تم اپنا گھر خریدلینا۔
2. دوسرا یہ کہ میرے مرحوم والد کی دکانوں سے جو کرایہ آتا ہے وہ میری والدہ اور میرے بھائی ہی استعمال کررہے ہیں ،اس کا کیا حل ہوسکتا ہے؟راہ نمائی فرمائیں!
مرحوم والد کے ورثاء میں ایک بیوہ، تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
1.صورت مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر حقیقت پر مبنی ہے تو والد کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ میں تمام ورثاءاپنے شرعی حصے کے بقدر حق دار ہیں،سائلہ کی والدہ کاورثاء میں میراث تقسیم نہ کرنا اور مرحوم کی دکانوں کا کرایہ سائلہ کی والدہ اور بھائیوں کا لینا اور والدہ کا میراث کی تقسیم کو بیٹوں کی شادی تک موخر کرنےکی وجہ سے دیگر ورثاءکو مرحوم کی میراث سے محروم کرنا ناجائز اور حرام اور بدترین گناہ ہے،لہذا اگر سائلہ کی والدہ مرحوم کے تمام شرعی ورثاء کو ان کا شرعی حق نہیں دے گی تو گناہ گار ہوگی اور قیامت کے دن سخت پکڑ ہوگی،نیز دنيا میں نہيں ديا تو آخرت میں بدترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا،رسول الله صلی الله عليہ وسلم نے كسی كو ميراث سے محروم كرنے والے كے ليےسخت ترين وعيد بيان فرمائی ہے؛لہذا سائلہ کی والدہ پر لازم ہے کہ مرحوم کی میراث کو جلد از جلد ان کے شرعی ورثاء کے درمیان شرعی ضابطۂ میراث کے مطابق تقسیم کردے،سائلہ بھی دیگر ورثاء کی طرح مرحوم والد کی میراث کی حق دار ہے،نیز سائلہ کی والدہ اور بھائیوں پر لازم ہے کہ سائلہ کو میراث میں اس کا شرعی حصہ دے دیں اور سائلہ اسی سے اپنے اخراجات کا بندوبست کرے ، سائلہ کے بھائیوں پر سائلہ کے گھر کا کرایہ دینا لازم نہیں، نیز واضح رہے کہ کسی ایک وارث کے مطالبے پر میراث تقسیم کرنا واجب ہوجاتا ہے یعنی کسی شرعی عذر کے بغیر مزید تاخیر کرنا اور ٹال مٹول سے کام لینا گناہ کا باعث ہوتا ہے۔
مرحوم والد کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز و تكفين كے خرچہ كو كل ترکہ سے نكالنے كے بعداگر ان پر قرض ہے تو اس کے ادا کرنے کے بعد، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی حصہ سے نافذ کرنے کے بعد باقی ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 64 حصوں میں تقسیم کرکے 8 حصے بیوہ کو،14حصے ہرا یک بیٹے کو،7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
تقسیم کی صورت یہ ہے:
مرحوم والد:64/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||
8 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 |
فیصد کے اعتبا ر سے12.5 فیصد بیوہ کو،21.88 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 10.94 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
2.مرحوم کے ترکہ میں دکانوں کا جو کرایہ آتا ہے وہ بھی مرحوم کا ترکہ ہے جسے ہر مہینے تمام ورثاء میں شرعی ضابطۂ میراث کے مطابق تقسیم کرنا ضروری ہے،نیز اب تک جتنا کرایہ وصول کیا ہے اور اس میں سے بہنوں کو ان کا حق نہیں دیا ہےاس کا مکمل حساب کتاب کرکے ہر ایک بہن کو اس کا اب تک کا حق دینا ضروری ہےاور آئندہ بھی ہر ماہ کا کرایہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہے۔
حدیث شریف میں ہے :
"قال ابن نمير: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أخذ شبرا من الأرض ظلما طوقه يوم القيامة إلى سبع أرضين"، قال ابن نمير: "من سبع أرضين."
ترجمہ: ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:کسی نے ایک بالشت بھر بھی زمین ظلم سے لے لی تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔‘‘
(مسند أحمد،مسند العشرۃ المبشرۃ، مسند سعید بن زید، ج:2، ص:291 ، ط:دار الحدیث القاھرۃ)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة»، رواه ابن ماجه".
(باب الوصایا، الفصل الثالث ، ج:1، ص: 266، ط: قدیمی)
ترجمہ :’’حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100994
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن