بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، تین بیٹوں اور چار بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال 5 سال پہلے ہو چکا ہے۔  ہمارا ایک آبائی گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے ۔میری والدہ حیات ہیں ۔ ہم 4 بہنیں اور 3 بھائی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ والدہ کا آٹھواں حصہ کیسے نکالیں گے ۔ فرض کریں 1 لاکھ میں 20 ، 20 ہزار بھائیوں کے اور 10 ، 10 ہزار بہنوں کے حصے میں آئیں گے ۔ اس میں والدہ کا آٹھواں حصہ کیسے نکالیں گے ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اسے ادا کرنے کے بعد باقی ترکہ میں سے  اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی مال میں سے نافذ کرنے کے بعد  باقی   کل متروکہ جائیداد  (منقولہ و غیر منقولہ ) کو  80 حصوں میں تقسیم کر کے 10 حصے بیوہ کو، 14 حصے ہر بیٹے کو اور 7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے : 

میت : 80/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
7
101414147777

یعنی1 لاکھ (100000) روپے میں سے 12 ہزار 5 سو (12500) روپے بیوہ کو، 17 ہزار 5 سو (17500) روپے ہر بیٹے کو اور  8 ہزار 7 سو پچاس (8750) روپے ہر بیٹی کو ملیں گے۔

اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ مرحوم کی بیوہ (یعنی آپ کی والدہ) کو آٹھواں حصہ مرحوم کی اولاد میں تقسیم ہونے کے بعد نہیں بلکہ ان کے ساتھ ملے گا لہذا سوال میں جو اولاد کے حصے ذکر کیے گئے وہ درست نہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311102231

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں