بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، پانچ بیٹے، چار بیٹیوں میں تقسیمِ میراث


سوال

والد صاحب فوت ہوگئے ہیں، ورثاء میں ایک بیوہ، پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، (8,200٫000) بیاسی لاکھ کی پراپرٹی فروخت کی ہے، کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ واضح رہے کہ بیٹیاں ساری شادی شدہ ہیں، اور جو پراپرٹی سیل کی ہے، اس میں سارے بھائی رہائش پذیر تھے، جس میں بھائیوں نے بجلی کا بل دو لاکھ چڑھا دیا تھا، یہ بل کے پیسے صرف بھائیوں کے حصے میں سے کاٹے جائیں گے یا بہنوں کے حصے میں سے بھی بل کی رقم کٹے گی؟

جواب

بصورتِ مسئولہمرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہمرحوم کے ترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرنے کے بعد، باقیکل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو سولہ (16) حصوں میں تقسیم کرکے دو (2) حصے مرحوم کی بیوہ کو، اور دو/دو (2/2) حصے مرحوم کےہربیٹے کو اور ایک ایک (1/1) حصہ مرحوم کی ہر بیٹی کو ملے گا۔

اگر مرحوم کا کل ترکہ (حقوقِ متقدمہ ادا کرنے کے بعد) بیاسی لاکھ (8200000) ہی ہے تو اس میں سے دس لاکھ پچّیس ہزار (1025000) روپے مرحوم کی بیوہ کو، اور دس لاکھ پچّیس ہزار (1025000) روپے مرحوم کے ہر بیٹے کو، اور پانچ لاکھ بارہ ہزار پانچ سو (512500) روپے مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔

نیز مرحوم کے انتقال کے بعد مرحوم کے مکان کا آنے والا (دو لاکھ روپے) بجلی کا بل مکان میں رہائش پذیر افراد (یعنی مرحوم کے رہائش پذیر بیٹوں) کے ذمے ادا کرنا لازم ہوگا اور ان ہی کے حصوں میں سے  منہا کیا جائےگا، وہ مرحوم کے ترکے میں سے منہا نہیں کیاجائے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں