بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ عورت عدت کہاں گزارے؟


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوگیا اور اس کی دو بیویاں حیات ہیں ،اس فوت شدہ شخص کا ذاتی مکان نہیں ہے،کبھی کسی عزیر کے گھر اور کبھی کسی عزیز کے گھر بیویوں کے ساتھ رہتا تھا،اس کی بیویاں عدت کہاں گزاریں گی؟

جس وقت انتقال ہوا تھا اس وقت یہ شخص اپنی ایک بیوی کے ساتھ اس کے والد (اپنے سسر )کے گھر میں تھا اور اس کی دوسری بیوی اس شخص کی خالہ کے گھر میں تھی ۔

جواب

صورت مسئولہ میں شوہر کے انتقال کے وقت دونوں بیویاں جس گھر میں تھیں اگر ان گھروں میں عدت گزارنے میں کوئی پریشانی نہیں تو وہیں عدت گزاریں ورنہ جہاں ممکن ہو وہاں عدت گزار لیں، یعنی جو بیوی اپنے والد کے گھر میں تھی تو وہ وہیں عدت گزارے اور دوسری بیوی جو شوہر کی خالہ کے گھر میں تھی تو وہ شوہر کی خالہ کے گھر میں پردہ وغیرہ کے اہتمام کے ساتھ  عدت گزارے،البتہ اگر شوہر کی خالہ یا اس کےگھر والے اپنے  گھر میں رہنے کی اجازت نہ دیں تو پھر یہ بیوی اپنے والدین یا کسی رشتہ دار کے گھر میں عدت مکمل کرے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (‌في ‌بيت ‌وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.

(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا، وشمل بيوت الأخبية كما في الشرنبلالية."

 (‌‌‌‌کتاب الطلاق،باب العدة،فصل في الحداد،3/ 536،ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"على المعتدة أن تعتد في المنزل الذي يضاف إليها بالسكنى حال وقوع الفرقة والموت كذا في الكافي.

 لو كانت زائرة أهلها أو كانت في غير بيتها لأمر حين وقوع الطلاق انتقلت إلى بيت سكناها بلا تأخير وكذا في عدة الوفاة كذا في غاية البيان.

إن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على مالها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات فلها أن تسكن في نصيبها إن كان ما يصيبها من ذلك ما يكتفى به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها كذا في البدائع، وإن كان نصيبها من دار الميت لا يكفيها فأخرجها الورثة من نصيبهم انتقلت كذا في الهداية. لو أسكنوها في نصيبهم بأجرة وهي تقدر على أدائها لا تنتقل كذا في شرح مجمع البحرين لابن الملك. وإذا انتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه بمنزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه كذا في البدائع."

 (کتاب الطلاق،الباب الرابع عشر في الحداد،1/ 535،ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100468

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں