بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کو زکوۃ دینے کا حکم/ زکوۃ واجب ہونے کے لیے صرف بنیادی نصاب پر سال گزرنا شرط ہے، سارے مال پر شرط نہیں


سوال

1۔ کیا ایسی عورت کو زکوة  دیناجائز ہے جو بیوہ ہو اور صاحبِ نصاب بیٹے کے ساتھ رہتی ہو، ليكن خودصاحب ِنصاب نہ ہو ؟

2۔ میں نے ایک لاکھ روپے سے کاروبارشروع کیا تھا ، سات آٹھ ماہ بعد وہ پیسے خرچہ کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ ہوگئے ، بعد میں ان پیسوں میں ساٹھ ہزار اور شامل كيے ، دو تین ماہ بعد چار پانچ لاکھ اور  شامل كيے ۔اب ان پیسوں کی تعداد کُل سات لاکھ   ہوگئی هے ۔ ان پیسوں میں صرف شروع کے پیسوں پر سال پورا ہوا  ہے۔اب میں زكوة تمام پیسوں كی ادا کروں یا صرف شروع کے لاکھ  دو لاکھ كی ؟ بعض لوگ كہتے  ہیں کہ جن پیسوں پر سال پورا نہ ہوا ہو اور اس كی زكوة دی جائے تو زکوۃ ادا نہ ہوگی  سال پورا ہونے کے بعد جب زکوۃ فرض ہوگی تبھی  زکوۃ فرض ہونے کے بعد دوبارہ زکوۃ ادا کرنی ہوگی ؟

جواب

1۔زکاۃ  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جو  غریب اور ضروت مند ہو  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑے سات تولہ سونا، ساڑھے باون تولہ چاندی  یا اس کی قیمت) کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت اصلیہ سے زائد  سامان ہو  جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہو ،  ایسے شخص کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اگر کسی شخص کے  پاس ساڑھے سات تولہ سونا، ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا  ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر ہو تو اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے زکاۃ لینا جائز نہیں ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  بیوہ عورت مذکورہ نصاب میں سے کسی نصاب مالکہ نہ ہو ،اور  اس کے شوہر کے ترکہ سے بھی اس کے حصے میں آنے والی  رقم   اس قدر نہ ہو  جس سے وہ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت )کےبقدر رقم کی مالکہ بن جائے تو وہ مستحقِ زکاۃ ہے، اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا اور اگر اس کی ملکیت میں نصاب کی بقدر مال ہو تو اسے زکوۃ دینا جائز نہیں، صرف بیوہ ہونا مصرفِ زکوۃ نہیں۔

2۔ واضح رہے کہ زکاۃ کے وجوب کا شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جس وقت بندہ صاحبِ نصاب ہوجائے اُسی وقت سے اُس کا سال شروع ہوجاتا ہے اور نصاب پر سال گزرنے کا مطلب یہ ہے کہ سال کے دونوں اطراف میں نصاب مکمل ہو، اگرچہ درمیان میں کم زیادہ ہوتا رہے (بشرط یہ کہ مال بالکل ختم نہ ہوگیا ہو)، یعنی سال کے آخر میں دیکھا جائے گا کہ نصاب کے بقدر مال موجود ہے یا نہیں ، اگر سال کے آخر میں نصاب کے بقدر مال موجود ہے تو موجودہ کُل مال کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی ، چاہے کُل مال پر سال گزرا ہو یا کچھ مال پر ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ پر کل مال کی زکوۃادا کرنا واجب ہے، چاہے سال کُل مال پہ گزرا ہو یا صرف ابتائی مال پر، کیوں کہ سال کا گزرنا صرف نصاب پر شرط ہے ، کُل مال پر نہیں ۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے : 

"وَيَجُوزُ دَفْعُهَا إلَى من يَمْلِكُ أَقَلَّ من النِّصَابِ وَإِنْ كان صَحِيحًا مُكْتَسَبًا."

( الفتاوي الهندية، كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، 1 /189  ط: ماجديه)

نيز فتاوی عالمگیری میں ہے : 

"وَمَنْ كان له نِصَابٌ فَاسْتَفَادَ في أَثْنَاءِ الْحَوْلِ مَالًا من جِنْسِه ضَمَّهُ إلَى مَالِهِ وَزَكَّاهُ الْمُسْتَفَادُ من نَمَائِهِ أَوَّلًا وَبِأَيِّ وَجْهٍ اسْتَفَادَ ضَمَّهُ سَوَاءٌ كان بِمِيرَاثٍ أو هِبَةٍ أو غَيْرِ ذلك وَلَوْ كان من غَيْرِ جِنْسِهِ من كل وَجْهٍ كَالْغَنَمِ مع الْإِبِلِ فإنه لَا يَضُمُّ هَكَذَا في الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ."

( الفتاوی الھندیة، کتاب الزکاۃ، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، 1 /175 ط: ماجديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144307200031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں