بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کی عدت اور رہائش کا حکم


سوال

میرے  جیٹھ   کا  کچھ  ماہ قبل انتقال ہو گیا، اس وقت  میری ساس حیات تھیں،  جیٹھانی نے عدت پردہ میں رہ کر یہیں گزاری، جب کہ میرے سسر حیات نہیں تھے، کیا ایسا کرنا درست تھا؟  جب کہ ان کی اولاد  میں صرف ایک لڑکی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اب میری ساس کا بھی انتقال ہو گیا، اب ان کے ہمارے  ساتھ رہنے  کی کیا صورت ہے ؟یعنی مرحوم سسر کے گھر میں دیور  دیورانی  کے ساتھ ، جب کہ میکے میں ان کی والدہ حیات ہیں اور چار بھائی ہیں، نیز میری اور میرے شوہر کی کیا ذمہ داری بنتی ہے ان کی طرف؟ کیا ان ماں بیٹی کو جائیداد سے حصہ دے کر الگ کر سکتے ہیں ؟جب کہ بھتیجی شادی کے قابل ہے؟   چچا کا بھتیجی اور بیوہ بھابھی کی طرف کیا فرض بنتا ہے؟

جواب

اگر  کسی عورت  کے  شوہر کا انتقال ہوجائے یا اسے طلاق ہوجائے تو شوہر کے انتقال یا طلاق  کے وقت  شوہر کے جس گھر میں عورت کی رہائش ہو  اسی گھر میں بیوہ /مطلقہ کے لیے  عدت گزارنا لازم ہے، کسی شدید ضرورت کے بغیر اس سے نکلنا جائز نہیں ہے۔لہذاآپ کی جیٹھانی نے اپنے شوہر کے انتقال کے بعد شوہر کے گھر میں  پردے میں رہ کر عدت گزاری ہے توشرعاً ان کا عمل درست ہے۔

 وفات کی عدت کے بعد مرحوم شوہرنے اگر ترکہ میں مکان چھوڑا ہو تو بیوہ اس میں حصے کی حق دار ہے اور گھر میں اپنے حصے کے بقدر رہائش کا حق رکھتی ہے۔ ایسی صورت میں اپنا حصہ تقسیم کرکے وصول کرنے تک شوہر کے مکان میں رہ سکتی ہے،بیوہ کو  شوہر کے گھر سے جبری طور پر بے دخل کرنا جائز نہیں ہوگا۔تاہم غیر محارم (دیور وغیرہ) سے پردے کا اہتمام کرے۔ اور اگر شوہر نے مکان نہیں چھوڑا ہے تو بیوہ شوہر کے مال میں سے اپنے حصہ وراثت کی حق دار ہے۔اگر بیوہ کے پاس اپنا  یا شوہر سے وراثت کا اتنا مال ہو کہ وہ اپنی رہائش کا بندوبست کرسکے تو اس پر خود اپنی رہائش کا انتظام ضروری ہے، اور اس کے پاس وسائل نہیں ہیں توقریبی رشتہ داروں پر اس کی رہائش کا بندوبست واجب ہے۔

آپ اور آپ کے شوہر کو چاہیے کہ ان (ساس اور جیٹھانی) کے  ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کریں، ان کے مرحوم شوہر کی جائیداد اور مال میں سے ان کا جو حصہ بنتا ہے وہ انہیں دیاجائے۔اور اگر مرحوم شوہر کے گھر میں تقسیم کے بعد ان کی رہائش کے قابل جگہ بنتی ہو تو انہیں وہاں رہنے کا حق حاصل ہے، اس صورت میں ان کا مستقل طور پر علیحدہ ہونا یا انہیں علیحدہ کرنا لازم نہیں ۔البتہ اس صورت میں بھی انہیں اپنے دیور سے پردہ کرنالازم ہے۔

نیز  چوں کہ بچی (آپ کے شوہر کی بھتیجی) کے والد کا انتقال ہوچکا ہے اور بڑ ابھائی بھی نہیں؛ اس لیے شرعاً اب بچی کی کفالت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری  چچا (آپ کے شوہر) پر عائد ہوتی ہے، اب جب بھتیجی کی کفالت چچا کے ذمہ آچکی ہے تو اس کو چاہیے کہ جیسے اپنے  حقیقی بچوں کا خیال کرتا ہے، اسی طرح اپنے بھائی کے بچوں کا بھی خیال رکھے۔اور شادی وغیرہ کے معاملات میں بھی اسی اصول کے پیشِ نظر چچا ان کی والدہ کو اعتماد میں لے کر مناسب فیصلہ کرسکتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 536):

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ مشكول - (8 / 118):

"و أفاد بقوله بترتيب الإرث أن الأحق الابن و ابنه و إن سفل و لايتأتى إلا في المعتوهة على قولهما خلافا لمحمد كما سيأتي ثم الأب ثم الجد أبوه ثم الأخ الشقيق ثم الأب ، وذكر الكرخي أن الأخ والجد يشاركان في الولاية عندهما وعند أبي حنيفة يقدم الجد كما هو الخلاف في الميراث والأصح أن الجد أولى بالتزويج اتفاقًا ، وأما الأخ لأم فليس منهم ثم ابن الشقيق ثم ابن الأخ لأب ثم العم الشقيق ثم لأب ثم ابن العم الشقيق ثم ابن العم لأب ثم أعمام الأب كذلك الشقيق ثم لأب ثم أبناء عم الأب الشقيق ثم أبناؤه لأب ثم عم الجد الشقيق ثم عم الجد لأب ثم أبناء عم الجد الشقيق ثم أبناؤه لأب وإن سفلوا كل هؤلاء تثبت لهم ولاية الإجبار على البنت والذكر في حال صغرهما وحال كبرهما."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں