بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ خاتون سے تعلقات رکھنا


سوال

اگر کسی بیوہ عورت کا نکاح نہیں کروارہے    گھر والے اور  وہ کسی غیر کے ساتھ تعلقات بنانا چاہتی ہےتو کیا کریں؟

جواب

واضح رہے کہ مرد کے لیے نامحرم عورتوں سے بلاضرروت گفتگو، ہنسی مذاق اوربے تکلفی کرنا یا معاذاللہ ناجائز جسمانی تعلق قائم کرنا جائز نہیں۔شرعی حکم یہ ہے کہ اگرکسی نامحرم سے بات چیت کی ضرورت پیش بھی آئے تونگاہ نیچی کرکے بات  چیت کی جائے،لہجے میں بھی شدت ہونی چاہیے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ بیوہ عورت کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات استوا رکھنا ہر گز جائز نہیں، بلکہ اس سے سخت اجتناب لازم ہے۔نیز مذکورہ خاتون کے گھر والوں  کو  چاہیے جلد ان خاتون  کا مناسب جگہ رشتہ طے کر کےان کی  شادی کا بندوبست کریں؛  تاکہ یہ خاتون خود  گناہ میں پڑنے  اور دوسرے کے گناہ میں واقع ہونے کا سبب بننے سے بچیں، ورنہ اس کا وبال اس خاتون کے گھر والوں پر بھی ہوگا۔اس  لیے کہ عموماً دینی ماحول کے فقدان اور اسلامی تعلیمات سے ناواقفیت کی بناپر  لوگ بیوہ کے نکاحِ  ثانی کو معیوب سمجھتے ہیں، حالانکہ  بیوہ کا نکاح نہ کرنا زمانہ جاہلیت کی رسم ہے۔ عرب میں یہ رسم تھی کہ جب کوئی شخص مال چھوڑ کر مر جاتا تو اس کی بیوی کو نکاح نہ کرنے دیتے، تاکہ اس کا مال اس کے پاس رہے۔قرآن کریم نے اس رسم کو توڑا اورنکاح کی اجازت دی ۔

سورۂ بقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ(234) }[البقرة: 234، 235]

ترجمہ :’’اور جو لوگ تم میں سے وفات پاجاتے ہیں اور بیبیاں چھوڑ جاتے ہیں وہ بیبیاں اپنے آپ کو (نکاح وغیرہ سے) روکے رکھیں چار مہینے اور دس دن پھر جب اپنی میعاد (عدت) ختم کرلیں تو تم کو کچھ گناہ نہ ہوگا ایسی بات میں کہ وہ عورتیں اپنی ذات کے لیے کچھ کاروائی (نکاح کی) کریں قاعدے کے موافق اور اللہ تعالیٰ تمہارے تمام افعال کی خبر رکھتے ہیں  ‘‘۔

ریاض الصالحین میں ہے:
"باب تحريم النظر إِلَى المرأة الأجنبية والأمرد الحسن لغير حاجة شرعية:

قَالَ الله تَعَالَى:{ قُلْ لِلمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أبْصَارِهِمْ } [ النور : 30 ]، وقال تَعَالَى :{ إنَّ السَّمْعَ وَالبَصَرَ والفُؤادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً } [ الإسراء : 36 ]، وقال تَعَالَى:{ يَعْلَمُ خَائِنةَ الأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ } [ غافر : 19 ]، وقال تَعَالَى :{ إنَّ رَبكَ لَبِالمِرْصَادِ } [ الفجر : 14 ].
(3) وعن أَبي هريرة - رضي الله عنه - : أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ : (( كُتِبَ عَلَى ابْن آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكُ ذَلِكَ لا مَحَالَةَ : العَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ ، وَالأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِناهُ الكَلاَمُ، وَاليَدُ زِنَاهَا البَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الخُطَا، والقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الفَرْجُ أَوْ يُكَذِّبُهُ )). متفق عَلَيْهِ. هَذَا لفظ مسلمٍ".

(كتَاب الأمُور المَنهي عَنْهَا،  ص: 455،الناشر: دار ابن كثير ،  بيروت )

در مختار میں ہے:

"وفي الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: ولايكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لايردّ السلام عليها وإلا لا انتهى".

(الدر المختار ورد المحتار ،(6 / 369)، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307102279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں