بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا عدت وفات میں اپنے بچہ کو چیک اپ کرانے کے لیے ہسپتال لے جانے کا حکم


سوال

ایک عورت کاشوہر فوت ہوگیا، اس کے گھر میں اب اور کوئی نہیں ہے وہ عورت حاملہ بھی ہے اورتین سالہ بیٹے کا علاج پشاور کے ہسپتال میں چل رہاہے۔

1)کیا یہ عورت میکے میں عدت گزارسکتی ہے؟

2) تين سالہ بیٹے کو چیک اپ کے لیے پشاورلے جاسکتی ہے؟

جواب

1)واضح رہے کہ بیوہ عورت پر عدت اپنے مرحوم شوہر کے گھر میں ہی گزارنالازم ہے، کسی شدید عذر کے بغیراس گھر سے باہر نکلنایارہائش منتقل کرنا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مرحوم شوہر کے گھر میں  رہ کر عدت مکمل کرنے میں کوئی شرعی عذر نہیں یعنی کسی قسم کے جان ،مال یا عزت وآبرہ کا خطرہ نہیں تو اسی گھر میں رہ کر عدت مکمل کرنا لازم ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة ‌طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."

(‌‌کتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد: 3/ 536، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و أما في حالة الضرورة فإن اضطرت إلى الخروج من بيتها بأن خافت سقوط منزلها أو خافت على متاعها أو كان المنزل بأجرة ولا تجد ما تؤديه في أجرته في عدة الوفاة فلا بأس عند ذلك أن تنتقل، وإن كانت تقدر على الأجرة لا تنتقل، وإن كان المنزل لزوجها وقد مات عنها فلها أن تسكن في نصيبها إن كان نصيبها من ذلك ما تكتفي به في السكنى وتستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها، وإن كان نصيبها لايكفيها أو خافت على متاعها منهم فلا بأس أن تنتقل، وإنما كان كذلك؛ لأن السكنى وجبت بطريق العبادة حقا لله تعالى عليها، والعبادات تسقط بالأعذار، وقد روي أنه لما قتل عمر - رضي الله عنه - نقل علي - رضي الله عنه - أم كلثوم - رضي الله عنها - لأنها كانت في دار الإجارة، وقد روي أن عائشة - رضي الله عنها - نقلت أختها أم كلثوم بنت أبي بكر - رضي الله عنه - لما قتل طلحة - رضي الله عنه - فدل ذلك على جواز الانتقال للعذر، وإذا كانت تقدر على أجرة البيت في عدة الوفاة فلا عذر، فلا تسقط عنها العبادة كالمتيمم إذا قدر على شراء الماء بأن وجد ثمنه وجب عليه الشراء وإن لم يقدر لايجب لعذر العدم.وإذاانتقلت لعذر يكون سكناها في البيت الذي انتقلت إليه منزلة كونها في المنزل الذي انتقلت منه في حرمة الخروج عنه؛ لأن الانتقال من الأول إليه كان لعذر فصار المنزل الذي انتقلت إليه كأنه منزلها من الأصل فلزمها المقام فيه حتى تنقضي العدة".

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:325،326،ط:المکتبة الوحیدیة پشاور)

2) عدت کے دوران شدید مجبوری کے بغیر گھر سے نکلنا ،سفر کرنا شرعاً جائز نہیں،نیز عام حالت میں بھی عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنا شرعاً جائز نہیں؛  لہذابيٹے كو چيك اپ كرانے كے ليے پشاور لےجانا ضروری ہو  اور مسافتِ سفر ہو تو  اس کے  لیے پوری کوشش یہی  کی جائے کہ کسی اور قریبی رشتہ دار کے ساتھ بھیجے اور اگر ایسا کوئی نہ ہو تو عدت کے بعد کسی محرم کے ساتھ جائے، لیکن اگر جلد لے جانا ضروری ہو اور جانےكے ليے  سائلہ كے علاوه اور كوئی نہ ہو، اسی طرح بچہ کولگی ہوئی بیماری کا علاج پشاور(دور) کے علاوہ قریب میں کوئی ہسپتال میسر نہ ہواور سخت مجبوری میں سائلہ جاتی ہے تو امید ہے کہ یہ  لے جاناشرعی مجبوری میں شمار ہوگا اور اس پر شرعاً مؤاخذہ نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومعتدة موت تخرج في الجديدين وتبيت) أكثر الليل (في منزلها) لأن نفقتها عليها فتحتاج للخروج، حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها الخروج فتح. وجوز في القنية خروجها لإصلاح ما لا بد لها منه كزراعة ولا وكيل لها (طلقت) أو مات وهي زائرة (في غير مسكنها عادت إليه فورا) لوجوبه عليها

(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه.

(قوله: في الجديدين) أي الليل والنهار فإنهما يتجددان دائما ط.

(قوله: ونحو ذلك) منه ما في الظهيرية: لو خافت بالليل من أمر الميت والموت ولا أحد معها لها التحول - والخوف شديد - وإلا فلا."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص: 536، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504102007

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں