بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا دوسری شادی کرنے کے بعد سابقہ شوہر کا پینشن لینا/ بیوہ کا شوہر کے میراث میں حصہ


سوال

1):۔ بیوہ عورت کا اگر دوسری جگہ نکاح ہوجائے تو وہ اپنے مرحوم شوہر کی پینشن لے سکتی ہے؟

2):۔بیوہ  شوہر کی میراث میں کس قدر حصہ دار ہوگی؟

جواب

1):۔پینشن کی رقم  ادارہ   جس کے نام پر جن شرائط کے تحت  جاری کرے ان ہی شرائط کے مطابق وہ شخص اس کا مستحق ہوتا ہے، لہذااگر ادارے کے ضوابط کے مطابق بیوہ نکاح کرنے کے بعد بھی پنشن کی مستحق ہے تو اس کےلیے لینا جائز ہوگا اور اگر ادارے کے ضوابط کے مطابقدوسری جگہ نکاح کے بعد  وہ پنشن کی  مستحق نہیں تو اس کے لیے لیناجائز  نہ ہوگا۔

2):۔شوہر  مرحوم نے جتنا مال وجائیداد وغیرہ ترکہ میں چھوڑا ہے، اس سب میں شوہر کے فوت ہوجانے کے بعد اس کی بیوہ کا بھی   حصہ ہوتا ہے، اگر شوہر  نے کوئی اولاد (لڑکا یا لڑکی) چھوڑی  ہو تو کل ترکے میں سے بیوہ کا آٹھواں حصہ   شرعاً مقر رہے، اور اگر مرحوم کی کوئی اولاد نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں مرحوم کی بیوہ کو  کل مال وجائیداد سے ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔

نوٹ:بیوہ اگر دوسری شادی کرلے تب بھی  مرحوم شوہر کے میراث میں  مذکورہ حصہ ملے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم."

(کتاب الحدود ، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود ج: 7، ص : 57،  ط : دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌الملك ‌ما ‌من ‌شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ج:5، ص:51، ط: دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وأما الاثنان من السبب فالزوج والزوجة فللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن، والربع مع الولد أو ولد الابن وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار."

(کتاب الفرائض ،الباب الثانی فی ذوی الفروض ،ج:6،ص:450،دارالفکر)

شرح مختصر الطحاوی میں ہے:

"(وللمرأة من ميراث زوجها الربع إذا لم يكن له ولد، ولا ولد ابنٍ، فإن كان له ولد، أو ولد ابنٍ، وإن سفل: فلها الثمن).

وذلك لقول الله تعالى:{‌ولهن ‌الربع مما تركتم إن لم يكن لكم ولد فإن كان لكم ولد فلهن الثمن مما تركتم}".

(كتاب الفرائض، ‌‌باب قسمة المواريث،ج:4، ص:83، ط: دار البشائر الإسلامية)

امداد الفتاوی میں ہے:

"چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔"

 

(کتاب الفرائض ج:4،  ص:343، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102485

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں