بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا دوسری جگہ شادی کرنے سے مرحوم شوہر ملنے والے حصے کاحکم


سوال

اگر ایک لڑکی پہلے ایک بھائی کے نکاح میں ہو اور اس کے انتقال کے بعد دوسرے بھائی کے نکاح میں ہو تو کیا لڑکی کو دونوں بھائیوں کی جائیداد میں سے حصہ ملے گا یا صرف ایک سے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں بیوہ کو دونوں بھائیوں کی جائیداد سے حصہ ملے گا، ایک بھائی کی وفات کے بعددوسرے بھائی سے نکاح کرنے کی صورت میں پہلے بھائی (شوہر ) کی طرف سے ملنے والا حصہ ساقط نہیں ہوتا۔

قرآن پاک میں ہے :

 وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ(سورۃ النساء 12)

ترجمہ :اور ان بیبیوں کو چوتھائی ملے گا اس ترکہ کا جس کو تم چھوڑ جاؤاگر تمہاری کچھ اولاد نہ ہو اور اگر تمہارے کچھ اولاد ہوتو ان کو تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ملے گا وصیت نکالنے کے بعد کہ تم اس کی وصیت کرجاؤیا دین کے بعد ۔(از بیان القرآن )

فتاوی شامی میں ہے :

"(‌ويستحق ‌الإرث برحم ونكاح) صحيح فلا توارث بفاسد ولا باطل إجماعا .

(قوله ونكاح صحيح) ولو بلا وطء ولا خلوة إجماعا در منتقى (قوله فلا توارث بفاسد) هو ما فقد شرطا من شروط الصحة كشهود، ولا باطل كنكاح المتعة والمؤقت وإن جهلت المدة، أو طالت في الأصح كما مر في محله".

(كتاب الفرائض ج:6 ص:762 ط: سعيد )

وفیہ ایضا:

"(فيفرض للزوجة فصاعدا الثمن مع ولد أو ولد ابن وإن سفل والربع لها عند عدمهما) فللزوجات حالتان الربع بلا ولد والثمن مع الولد".

(کتاب الفرائض ج: 6 ص: 769 / 779 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101717

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں