بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا بچہ کے غیر ذی رحم محرم میں شادی کر نے کے بعد پرورش کا حکم


سوال

میں نے کچھ ماہ قبل  ایک بیوہ لڑکی سے شادی کی ہے ،یہ لڑکی دراصل میری والدہ کے ماموں کی پوتی بھی تھی ،اس لڑکی کی گزشتہ شادی دو سال رہی اور اس کا  اس شادی سے ایک بچہ بھی تھا ،شادی کے وقت میں نے اس بچے کو متبنّی بنانے کا فیصلہ کیا ،اس فیصلہ میں لڑکی کے میکے والوں نے ہمار ابھرپور ساتھ دیا ،میری بیوی کے پچھلے سسرال والے اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں ،کچھ دن پہلے ان کا میرے والد اور میری زوجہ کے نام خط آیا جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ  میری بیوی دوسری شادی کے بعد اپنی پرورش کا حق کھو چکی ہے ،ان کا مطالبہ ہے کہ اس بچے کو سات سال تک اس کی نانی پالیں اور اخراجات دادادادی اٹھائیں، اور سات سال کے بعد یہ بچہ ان کے حوالے کر دیا جائے ،یاد رہے اس بچے سے دوری میری بیوی پر انتہائی ناگزیر ہو گی،ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ میری بیوی نے ایک ایسے شخص سے نکاح کیا ہے جو اس بچے کا ذی رحم ِمحرم نہیں ہے تو ایسی صورت میں اس بچے کو ساتھ رکھنا نا جائز ہے ،واضح رہے یہ بچہ ایک لڑکا ہے ۔اب اس صورتِ حال میں میرا سوا ل یہ ہے کہ کیا اس بچے کو متبنّی بنا کر اپنے ساتھ رکھنا میرے لیے درست یا جائز ہے یا نہیں ؟   

جواب

واضح رہے کہ اگر بیوہ عورت ایسے مرد سے نکاح کرے جو بچوں کا محرم رشتہ دار نہیں ہو ، تو ایسی صورت میں بیوہ کو بچہ کی پرورش کا حق نہیں ہوتا، بلکہ اس کا حق ساقط ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں سات برس سے پہلے لڑکے اور نو برس سے پہلے لڑکیوں کی پرورش کا حق نانی اور پرنانی کو ملتا ہے ، اُن کے بعد دادی اور پردادی کو، پھر خالہ اور پھوپی کو اور اگر بچوں کی رشتہ داروں میں سے کوئی عورت پرورش کے لیے نہ ملے ، تو دادا وغیرہ ( عصبات کی ترتیب کے مطابق )  کو پرورش کا حق ہوتا ہے  ۔ یہ استحقاق بچہ کی تربیت اور مفاد کی خاطر ہوتا ہے  ،البتہ اگر بیوہ ایسے مرد سے نکاح کرے  جو بچوں کا محرم رشتہ دار ہو ، جیسے بچوں کا چچا، تو ایسی صورت میں اولادکی پرورش کا حق بیوہ ماں کو ملتا ہے ، اور بچے کے دادا دادی کو منع کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا  ۔اور بچوں کا نفقہ بہر صورت دادا، پردادا ، چچا وغیرہ پر عصبات کی ترتیب پر واجب ہوتا ہے ۔

لہذا صورت مسئولہ میں جب سائل اس بچے کا غیر ذی رحم محرم ہے اور اس بچے کی ماں نے اس کے غیر ذی رحم محرم  میں شادی کی ہے تو ایسی صورت میں سائل کی بیوی  کاپرورش کا حق ساقط ہو گیا ہے ،ایسی صورت میں اگر بچے کے دادادادی اس بچے کو سائل کو دینے پر راضی نہیں ہیں تو پھر سائل کا اس بچے کو متبنی بنا کر اپنے پاس رکھنا جائز نہیں ہے ،البتہ بچے کے دور ہونے کی وجہ سے بچہ کی ماں کی طبیعت خراب ہوتی ہو تو پھر بچے کی ماں کو چاہیے  کہ بچے کے دادادادی  سے مصالحت  کرلے کہ وہ بچہ کو اس کے پاس رہنے دیں ، اگر بچہ کے دادی دادی بچہ کو اس کی ماں کے پاس  چھوڑنے پر راضی ہو جائیں تو پھر سائل اس بچہ کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے، اور اگردادای دادی بچہ کو  سائل کے پاس چھوڑنے پر راضی نہ ہوں تو پھر سات سال کی عمر تک بچہ نانا نانی کے پاس رہے گا اور سات سال کی عمر کے بعد  بچہ کی پرورش کا حق دادادادی کو ہوگا۔   

تبیین الحقائق میں ہے:

قال رحمه الله ( ومن نكحت غير محرمه سقط حقها ) أي من تزوج ممن له حق الحضانة بغير محرم للصغير سقط حقها لما روينا , ولأن زوج الأم يعطيه نزرا , وينظر إليه شزرا فلا نظر في الدفع إليه بخلاف ما إذا كان الزوج ذا رحم محرم للصغير كالجدة إذا كان زوجها الجد , أو الأم إذا كان زوجها عم الصغير , أو الخالة إذا كان زوجها عمه أو أخاه , أو عمته إذا كان زوجها خاله أو أخاه من أمه لا يسقط حقها لانتفاء الضرر عن الصغي

  (کتاب الطلاق، باب الحضانة،ج:۳،ص: ۴۷،ط: دار الکتب الاسلامی)

الدر مع الرد میں ہے:

قال الحصکفی : (ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور وأما أم أبي الأم فتؤخر عن أم الأب بل عن الخالة أيضا بحر (ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه

( کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:۳،ص:۵۶۳ ، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں