بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کے لیے نئے نکاح نامے میں بیوگی کے متعلق نہ لکھوانے کا حکم


سوال

ایک لڑکی کی شادی ہوئی، لیکن اسے شناختی کارڈ میں اندراج کرانے کا وقت نہیں ملا، چار سال بعد وہ بیوہ ہوگئی،عدت پوری کرنے کے بعد اب دوبارہ نکاح کرنا ہے،اس کے سابقہ سسرال والے اسے ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں دے رہے،اب چوں کہ شناختی کارڈ میں وہ کنواری ہی ہے، تو کیا دوبارہ نکاح میں اگر بیوہ نہ لکھوایا جائے تو کوئی حرج تو نہیں ؟

جواب

نکاح نامہ میں چوں کہ دُلہن کی ازدواجی حیثیت کے متعلق ایک باقاعدہ شق موجود ہے جس کے اندر یہ سوال درج ہوتا ہے کہ ’’آیا دلہن کنواری ہے،یا بیوہ ہے یا مطلقہ‘‘،اس لیے اگر اس شق کو پُر کرنااختیاری ہوتا ہے،تب تو اسے پُر نہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،لیکن اس صورت میں بھی نئے شوہر کو اس بات سے لاعلم رکھنااور غلط بیانی کرنادرست نہیں ہے،سسرال والوں کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی کاپی نہ دینادرست نہیں ہے،بلکہ بیوی کا حق ہےجوان کو ملناچاہیے،اور اگر وہ باوجود مطالبہ کے نہیں دیتے تو نکاح نامہ کے مذکورہ خانہ میں اندراج کے لیے کسی  اہلِ قانون سے مشورہ کیاجائے۔

تبیین الحقائق  میں ہے:

"وأما بيان نفس العيب فلا بد منه بأن يبين العيب والثمن من غير أن يبين أنه اشتراه سليما ثم حدث به العيب عنده؛ لأن بيان ما فيه من العيب واجب شرعا لقوله صلى الله عليه وسلم:من ‌غشنا فليس منا، فلا يجوز إخفاؤه."

(ص:٧٨،ج:٤،کتاب البیوع،باب التولية،ط:دار الكتاب الإسلامي)

الموسوعة الفقهية الكويتية  میں ہے:

"اتفق الفقهاء على أن ‌الغش ‌حرام سواء أكان بالقول أم بالفعل، وسواء أكان بكتمان العيب في المعقود عليه أو الثمن أم بالكذب والخديعة، وسواء أكان في المعاملات أم في غيرها من المشورة والنصيحة."

(ص:٢١٩،ج:٣١،الغش،ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101672

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں