بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ عدت کہاں گزارے گی؟


سوال

ہمارے علاقہ کا ایک آدمی کراچی میں فوت ہوا اور تدفین گاؤں میں ہوئی جو کہ مانسہرہ کی طرف ہے، کراچی سے میت لاتے وقت اس کی بیوی بھی ساتھ تھی، اب یہ عورت واپس کراچی جانا چاہتی ہے اور وہی عدت گزارنا چاہتی ہے، کیوں کہ یہاں(گاؤں میں) اس کے لیے ٹھہرنا مشکل ہے،  انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے، تو کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ وہ واپس چلی جائے؟

جواب

 عدت سے متعلق حکم یہ ہے کہ عورت اسی گھر عدت گزارے  جس گھر زندگی میں شوہر کے ساتھ رہا کرتی تھی ،  لیکن اگر وہاں سے سفر کر کے کسی دوسری جگہ منتقل ہوگئی ہواور وہاں یعنی شوہر کے آبائی وطن میں بھی شوہر کا گھر موجود ہو اسی جگہ عدت گزار لینی  چاہیے، تاہم منتقلی کے بعد بھی   عورت پر دوسرے گھر میں عدت کی وہی پابندیاں  لاگو ہوں گی جو پہلے میں لاگو تھیں۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ بیوہ  چوں کہ گاؤں جا چکی ہے تو اگر ممکن ہو تو وہیں پر عدت گزار لے اور اگر گاؤں میں عدت گزارنا ممکن نہ ہو  مثلا گاؤں میں شوہر کاگھر وغیرہ موجود نہیں ہے تو وہ بیٹے یا کسی محرم کے ساتھ کراچی منتقل ہو سکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه۔۔۔(قوله: في بيت وجبت فيه) هو ما يضاف إليهما بالسكنى قبل الفرقة ولو غير بيت الزوج كما مر آنفا."

(كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"يلزم أن تلزم المنزل الذي ‌يسكنان ‌فيه ‌قبل ‌الطلاق."

(باب النفقة، مطلب في نفقة المطلقة، ج:3، ص:609، ط:سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"‌معتدة ‌الطلاق ‌والموت يعتدان في المنزل المضاف إليهما بالسكنى وقت الطلاق والموت ولا يخرجان منه إلا لضرورة لما تلوناه من الآية والبيت المضاف إليها في الآية ما تسكنه كما قدمناه سواء كان الزوج ساكنا معها أو لم يكن."

(باب العدة، فصل في الإحداد، ج:4، ص:167، ط:دار الكتاب الإسلامي)

تبيين الحقائق ميں هے:

"وتعتدان ‌في ‌بيت ‌وجبت ‌فيه إلا أن تخرج أو ينهدم) أي تعتد المتوفى عنها زوجها إن أمكنها أن تعتد في البيت الذي وجبت فيه العدة بأن كان نصيبها من دار الميت يكفيها أو أذنوا لها في السكنى فيه، وهم كبار أو تركوها أن تسكن فيه بأجر وهي تقدر على ذلك لأنه - عليه الصلاة والسلام - «قال لفريعة بنت مالك حين قتل زوجها، ولم يدع مالا ترثه، وطلبت أن تتحول إلى أهلها لأجل الرفق عندهم امكثي في بيتك الذي أتاك فيه نعي زوجك حتى يبلغ الكتاب أجله» رواه الترمذي، وصححه."

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، ج:3، ص:37، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100965

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں