بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، ببیٹے اور تین بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم، تخارج


سوال

والد صاحب مرحوم کا ایک مکان کراچی میں تھا، جس کو فروخت کر کے لاہور میں دو مکان خریدے، ایک مکان کرائے پر لگایا اور دوسرے میں رہائش اختیار کی، کرائے والے مکان کا کرایہ مکمل والدہ نے لیا، جو تقریبا 2376000 (تیئیس لاکھ چھیتر ہزار ) بنتا ہے، چھ سال کے حصاب سے، اب دونوں مکان اور حاصل شدہ کرایہ تمام ورثاء میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں، نیز والد صاحب مرحوم کے پیسوں سے والد صاحب نے ایک گاڑی بھی خریدی جس کی قیمت آٹھ لاکھ روپے ہے، مکان کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے:

مکان ٹائی کون لاہور کی قیمت 16000000 ہے، دوسرا مکان تاج باغ لاہور کی مالیت آج کے حساب سے 15000000 ہے، ورثاء میں ہماری ایک والدہ ایک بھائی اور ہم تین بہنیں شامل ہیں، ہم ہر ایک وارث کا حصہ رقم کے اعتبار سے شریعت کے مطابق تقسیم کر کے راہ نمائی فرمائیں۔

نیز تاج باغ والا مکان تقریباً ایک سال قبل ہمارے بھائی نے اپنے حصے کے طور پر اپنے پاس رکھ لیا تھا، باقی جائیداد کی تقسیم مکمل نہیں ہوئی تھی، اب باقاعدہ طور پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو پوچھنا یہ ہے کہ آیا اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا جب بھائی نے لیا تھا یا آج کی قیمت کا اعتبار کر کے نئے سرے سے تقسیم ہو گی؟

واضح رہے کہ جس وقت بھائی نے مکان لیا تھا اس وقت اس مکان کی مالیت ایک کروڑ تیس لاکھ تھی۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ایک بیٹے نے  جس وقت ترکہ کا ایک  مکان اپنی طرف کر لیا تھا ، اگر اس وقت تمام ورثاء کے درمیان بخوشی یہ بات طے ہو گئی تھی کہ یہ مکان اس بھائی کا حصہ ہے اس کے علاوہ اس بھائی کا ترکہ میں کوئی حصہ نہیں ہو گا تو ایسی صورت میں یہ مکان مرحوم کے بیٹے کی ملکیت ہو گا اور اب یہ مکان ترکہ کی تقسیم میں شامل نہ ہو گا اور بھائی کا دیگر ترکہ میں بھی کوئی حصہ نہ ہو گا۔

اس صورت میں مرحوم کی جائیداد کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اولاً مرحوم کے ترکہ میں سے اس کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں، پھر اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کو ادا کیا جائے، اس کے بعد مرحوم کی جائز وصیت کو ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کر کے مرحوم کی کل جائیداد کو 26 حصوں میں تقسیم کر کے 5 حصے بیوہ کو اور 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

40/8 تخارج 26

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
514 (تخارج)777

یعنی 19176000 روپے  (تاج باغ والے مکان کے علاوہ)میں سے 3687692.307 روپے بیوہ کو اور 5162769.230 روپے ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

لیکن اگر اس وقت یہ بات  طے ہوئی تھی کہ فی الحال یہ مکان بھائی لے رہے ہیں اور اس کا حساب بعد میں کریں گے تو ایسی صورت میں  اس وقت چوں کہ باقاعدہ ترکہ تقسیم نہیں کیا گیا تھا اس لیے اُس وقت کی قیمت کا اعتبار نہیں ہو گا، بلکہ اب اس مکان کی موجودہ قیمت کا حساب لگا یا جائے گا اور اپنے حصے سے جتنا زائد بھائی نے وصول کیا ہے، وہ بھائی سے وصول کیا جائےگا۔

اس صورت میں  مرحوم کی کل جائیداد   کو 40 حصوں میں تقسیم کر کے 5 حصے بیوہ کو، 14 حصے بیٹے کو اور 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

40/8

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
514777

یعنی کل ترکہ کی رقم  (تاج باغ والے مکان سمیت)34176000 میں سے 4272000 بیوہ کو، 11961600 روپے مرحوم کے بیٹے کو اور 5980800 روپے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم شرع في مسألة التخارج فقال:(ومن صالح من الورثة) والغرماء على شيء معلوم منها (طرح) أي اطرح سهمه من التصحيح وجعل كأنه استوفى نصيبه (ثم قسم الباقي من التصحيح) أو الديون (على سهام من بقي منهم) فتصح منه.

(قوله: ثم شرع في مسألة التخارج) تفاعل من الخروج وهو في الاصطلاح تصالح الورثة على إخراج بعضهم عن الميراث على شيء من التركة عين أو دين، قال في سكب الأنهر: وأصله ما روي أن عبد الرحمن بن عوف رضي الله تعالى عنه طلق في مرض موته إحدى نسائه الأربع ثم مات وهي في العدة، فورثها عثمان رضي الله تعالى عنه ربع الثمن، فصالحوها عنه على ثلاثة وثمانين ألفا من الدراهم، وفي رواية: من الدنانير، وفي رواية: ثمانين ألفا، وكان ذلك بمحضر من الصحابة من غير نكير اه."

(ج:6، ص:811، کتاب الفرائض، باب المخارج، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100781

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں