بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، ایک بھائی، ایک بہن، کے حوالے سے میراث کی تقسیم


سوال

میرے چاچو کی وفات ہوئی ہے، ان کی کوئی  اولاد نہیں ہے، ایک بیوہ ، دو بھائی  ایک بہن موجود ہیں جب کہ ایک بھائی  کا وفات ہو گیا  ہے، ان کی بیوہ نے بیوگی کے پونے دو سال بعد شادی کر لی ہے، اب چاچو کی زمین کی تقسیم کس طرح ہو گی ؟ شادی پر ان کی بیوی کو جو زیور دیا گیا ، اس کا کیا حکم ہے؟ جو رقم بينک میں جمع ہے اس کی کیا شرعی تقسیم ہوگی؟ اس کے علاوہ گھریلو ضرورت کا سامان جو جہیز کے علاوہ ہے، جیسے واشنگ مشین ، روم کولر ، استری، برتن ، کمبل وغیرہ  ان کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے کہ کس طرح ان کی تقسیم ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر چاچو کے انتقال کے وقت ایک بیوہ دوبھائی اور ایک بہن زندہ تھیں ،تو  ترکہ کی تقسیم  اس طرح ہوگی  کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،  اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اسے منہا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ترکہ کے ایک تہائی حصے میں سے وصیت نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو  20 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 5 حصے مرحوم کی بیوہ کو،   6 حصےمر حوم کے ہر ایک بھائی کو،3 حصے مرحوم کی بہن کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے 

مرحوم چاچو  : 20/4 

بیوہ بھائی بھائی بہن 
13
5663

فیصد کے اعتبار سے 100 فیصد میں سے 25 فیصد مرحوم کی بیوہ کو، 30 فیصد مرحوم کے  ہر ایک  بھائی کو ،اور 15 فیصد مرحوم کی بہن کو ملیں گے۔

واضح رہے کہ وہ تمام چیزیں جو مرحوم  چاچو کی ملکیت میں تھیں وہ سب چیزیں مرحوم کے ترکہ میں تقسیم ہوں گی، چاہے وہ نقدی کی شکل میں ہوں، بینک اکاؤنٹ ہوں یا گھریلو اشیاء ہوں، البتہ وہ چیزیں جو بیوہ کی ملکیت ہیں، وہ مرحوم چاچو  کی میراث میں تقسیم نہیں ہوں گی، بلکہ ان چیزوں کی مالکہ مرحوم کی بیوہ ہی ہوگی۔

بیوہ  کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف  سے دیئے گئے وہ بیوہ کی ہے۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہیں :

"{ وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم ۚ مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ}." (سورة النساء(12))

ترجمہ :" اور تم کو آدھا ملیگا اس ترکہ کا جو تمھاری بیبیاں چھوڑ جاویں اگر ان کے کچھ اولاد نہ ہو اور اگر ان بی بیوں کے کچھ اولاد ہو تو تم کو ان کے تر کہ سے چوتھائی ملےگا وصیت نکالنے کے بعد کہ وہ اس کی وصیت کر جائیں یا دین کے بعد اور ان بیبیوں کو چوتھائی ملے گا اس ترکہ کا جس کو تم چھوڑ جاؤ ۔ اگر تمھارے کچھ اولاد نہ ہو ۔ اور اگر تمھارے کچھ اولاد ہو تو ان کو تمھارے تر کہ سے آٹھواں حصہ ملے گا وصیت نکالنے کے بعد کہ تم اس کی وصیت کر جاؤ یا دین کے بعد ۔ اور اگر کوئی میت جس کی میراث دوسروں کو ملے گی خوا ہ وہ (میت) مرد ہو یا عورت ایسا ہو جس کے نہ اصول ہوں نہ فروع ہو اور اس کے ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملےگا پھر اگر یہ لوگ اس سے زیادہ ہوں تو وہ سب تہائی میں شریک ہونگے وصیت نکالنے کے بعد جس کی وصیت کی جاوے یا دین کے بعد بشرطیکہ کسی کو ضرر نہ پہنچاوے یہ حکم کیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے اور الله تعالیٰ خوب جاننے والے ہیں حلیم ہیں ۔ (بیان القرآن)".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح  میں ہے:

"أقارب من جهة الأب، قال النووي رحمه الله: ‌قد ‌أجمعوا ‌على ‌أن ‌ما ‌بقي بعد الفرائض فهو للعصبات يقدم الأقرب فالأقرب فلا يرث عاصب بعيد مع وجود قريب".

‌‌[باب الفرائض، 2022/5، ط : دار الفكر]

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(باب المہر،158/3، ط:سعید)

       وفیه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

( کتاب النکاح، باب المہر، 153/3،ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"و المعتمد البناء على العرف كما علمت."

( باب المہر،157/3، ط؛ سعید)  

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(الفصل السادس عشر فی جہاز البنت،327/1، ط: رشیدیۃ)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144506102633

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں