بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، چھ بیٹوں اور سات بیٹیوں میں وراثت کی تقسیم


سوال

میرے والد صاحب کا انتقال ہوا، ان کے نکاح میں ایک بیوی تھی، ان کا انتقال پہلے ہو گیا تھا، پھر دوسری عورت سے نکاح کیا، والد کے انتقال کے وقت وہ حیات تھیں۔

 والد صاحب کے  ورثاء میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں، جو پہلی بیوی سے تھے، اور دو بیٹے ، دو بیٹیاں، جو دوسری بیوی سے ہیں۔

پوچھنا یہ ہے کہ والد کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟

دوسری بات یہ ہے کہ میں نے اپنی مزدوری اور کمائی سے ایک ہوٹل کرایہ پر لیا ہے، اس میں نہ کسی بھائی نے کچھ پیسے دیے تھے اور نہ والد صاحب کی کمائی سے، اب اس ہوٹل میں بھی ان دو بھائیوں کا حصہ ہو گا؟ جو والد صاحب کی دوسری بیوی سے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم والد کی جائیداد کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ اولاً مرحوم کی جائیداد میں سے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات ادا کیے جائیں، پھر اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو اس کو کل ترکہ سے ادا کیا جائے، پھر اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو ایک تہائی ترکہ میں سے ادا کیا جائے، اس کے بعد مرحوم کی کل جائیداد منقولہ  وغیر منقولہ کو 152 حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو 19 حصے، ہر ایک بیٹے کو 14 حصے اور ہر ایک بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

والد مرحوم 8 - 152

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
191414141414147777777

یعنی فیصد کے اعتبار سے 12.50 فیصد بیوہ کو، 9.210 فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 4.605 فیصد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

جو ہوٹل آپ نے اپنی ذاتی کمائی سے لیا ہے اس میں کسی دوسرے بھائی کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101802

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں