بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، چار بیٹوں اور پانچ بیٹیوں میں میراث کی تقسیم


سوال

ہم چار بھائی اور پانچ بہنیں ہیں ،والدہ زندہ ہیں  ، جبکہ والد محترم گزشتہ سال وفات پاگئے ہیں، ابھی تک ہم نے مشترکہ جائیداد کی تقسیم نہیں کی ہے، اب ہم آپس میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں ، اس حوالے سے چند سوالات پوچھنا ہے :

1۔ ہم میں سے ہر ایک کا کتنا حصہ بنتا ہے ۔

2۔بہنوں کو زمین اور گھر کے حصے کی قیمت دینا جائز ہے ؟

3۔ والد کی  وفات کے بعد جن بھائیوں نے خود کمائی کی ہے کیا وہ مشترکہ جائیداد میں داخل ہے؟

جواب

1۔صورت مسئولہ  میں  سائل کے مرحوم والد کے ترکہ کی  تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اسے ادا کرنے کے بعد  ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسےباقی ترکہ کے  ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعد  باقی   کل متروکہ جائیداد  (منقولہ و غیر منقولہ ) کو  104 حصوں میں تقسیم کر کے13 حصے بیوہ کو، 14 حصے ہر بیٹے کو اور 7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے : 

میت:8 / 104 

بیوہ بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹی بیٹیبیٹی بیٹیبیٹی
17
131414141477777

یعنی 100 روپے میں سے 12.50 روپے بیوہ کو ،13.461 روپے ہر ایک بیٹے کو ،6.370 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔

2۔اگر ترکہ میں زمینیں اور گھر ہیں تو ان زمینوں اور گھر  میں  بہنیں  اپنے حصہ کے بقدر حقدار  ہیں ،اگر بہنیں باہمی رضامندی  سے اپنے حصہ کے بدلہ رقم لینا چاہیں تو ایسا کرنا بھی جائز ہے ،لیکن اگر رقم نہ لینا چاہیں بلکہ زمین اور گھر میں اپنا حصہ باقی رکھنا چاہیں  تو اگر  گھر قابل تقسیم ہے (تقسیم کرنے کے بعد ہر وارث اپنے حصے سے نفع اٹھاسکتا ہے )تو اس صورت میں گھر کو تقسیم کردیا جائےاور اگر گھر قابل تقسیم نہیں ہے  تو اس صورت میں اس کی موجودہ مالیت لگا کر تقسیم کرلینا ہی درست  طریقہ ہے کہ بعض ورثاء دوسرے  کے حصے خرید کر پورا مکان اپنی ملکیت میں لے لیں ۔

3۔والد کی وفات کے بعد بھائیوں  نے اگر والد ہی کے کاروبار کا بڑھایا ہے اور اسی سے کمائی کی ہے تو یہ کمائی/ نفع وغیرہ  بھی والد کے ترکہ میں داخل ہوگا اور تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی ،لیکن اگر بھائیوں نے والد کے کاروبار سے کمائی نہیں کی ،بلکہ اپنے کسی اور ذاتی کاروبار وغیرہ سے کمائی کی ہے تو اس صورت میں یہ کمائی/ نفع وغیرہ   والد مرحوم کے ترکہ میں داخل نہیں ہوگا۔

وفي الفتاوى الهندية :

"شركة الملك نوعان: شركة جبر، وشركة اختيار فشركة الجبر أن يختلط المالان لرجلين بغير اختيار المالكين خلطا لا يمكن التمييز بينهما حقيقة بأن كان الجنس واحدا أو يمكن التمييز بضرب كلفة ومشقة نحو أن تختلط الحنطة بالشعير أو يرثا مالا ...وحكمها وقوع الزيادة على الشركة بقدر الملك، ولا يجوز لأحدهما أن يتصرف في نصيب الآخر إلا بأمره، وكل واحد منهما كالأجنبي في نصيب صاحبه ويجوز بيع أحدهما نصيبه من شريكه في جميع الصور ومن غير شريكه بغير إذنه إلا في صورة الخلط والاختلاط، كذا في الكافي."

(كتاب الشركة،الباب الأول في بيان أنواع الشركة وأركانها وشرائطها وأحكامها،الفصل الأول في بيان أنواع الشركة،2/ 301،ط:دار الفکر)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"(المادة ١٠٧٣) - (تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح) تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة."

( الكتاب العاشر الشركات، الباب الأول في بيان شركة الملك، الفصل الثاني في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ٣ / ٢٦، ط: دار الجيل)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144312100644

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں