بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کے درمیان ترکے کی تقسیم


سوال

موروثی جائے داد کی قیمت اسّی لاکھ روپے ہے، ورثا میں ایک بیوہ، چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، مرحوم کے والدین کا انتقال مرحوم کی زندگی میں ہی ہوچکا ہے، جائے داد کی تقسیم کس طرح ہوگی؟  

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم  کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو کل ترکہ سے  قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے  باقی کل  منقولہ و غیر منقولہ ترکہ  کو 80 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 10 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو اور 7 حصے مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:8 / 80                   

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
101414141477

 اسّی لاکھ روپے میں سے دس لاکھ روپے  مرحوم کی بیوہ کو، 14لاکھ روپے مرحوم کے ہر بیٹے کو اور 7 لاکھ روپے مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔

فیصد کے اعتبار سے 100 فیصد میں سے 12.5 فیصد   مرحوم کی بیوہ کو،17.5 فیصدمرحوم کے ہر بیٹے کو اور8.75 فیصد مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما النساء فالأولى البنت ولها النصف إذا انفردت وللبنتين فصاعدا الثلثان، كذا في الاختيار شرح المختار وإذا اختلط البنون والبنات عصب البنون البنات فيكون للابن مثل حظ الأنثيين، كذا في التبيين".

(الفتاوى الهندية، كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج: 6/ 448، ط: رشيدية)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وأما الاثنان من السبب فالزوج والزوجة فللزوج النصف عند عدم الولد وولد الابن، والربع مع الولد أو ولد الابن وللزوجة الربع عند عدمهما والثمن مع أحدهما، والزوجات والواحدة يشتركن في الربع والثمن وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار".

(الفتاوى الهندية، كتاب الفرائض،الباب الثاني في ذوي الفروض،ج:6/ 450، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں