بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ دو بیٹے اور دو بیٹیوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

 والد صاحب کی‎ ‎ایک بیوہ، 2 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں، 2010 میں والد صاحب کا انتقال ہوا۔

والد صاحب کی جائیداد میں ایک ‏گھر ہے جس میں ہم سب بہن بھائی رہتے ہیں۔

انتقال پر دفتر سے 24 سے 25 لاکھ روپے ملے، اس مال سے میں نے ‏اپنی بڑی بہن کو والد صاحب کے ہی گھر کی اوپر کی منزل میں گھر بنا کے دیا، جس میں 7 سے 8 لاکھ لگ گئے، چھوٹی بہن کی ‏شادی کی جس میں 7 سے 8 لاکھ لگے، یہ بھی اسی گھر میں رہتی ہے، سسرال میں نہیں رہتی۔ گھر میں تعمیراتی کام کروایا  ‏جس میں 6 سے 7 لاکھ لگے۔

2014 میں میری شادی ہوئی جس میں 5 لاکھ میں نے لیے۔

والد صاحب کی پینشن والدہ ‏کے پاس آتی ہے۔

1- اب ہم نے میراث تقسیم کرنی ہے۔

‏2- اب میرا ‏‎ ‎ارادہ ہے کہ آدھا گھر والدہ اور دونوں بہنوں اور ان کے بچوں کو دے دوں اور آدھا گھر بیچ کر میں کسی ‏دوسری جگہ الگ رہنا چاہتا ہوں پردے وغیرہ کے مسائل اور میرے بچوں کی تربیت کا مسئلہ ہو رہا ہے ۔اس کی کیا ‏صورت ہو سکتی ہے؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے  کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ  کو  48 حصوں میں تقسیم کرکے 6 حصے مرحوم کی بیوہ کو، 14 حصے مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو اور 7 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

یعنی سو روپے میں سے ساڑھے بارہ روپے بیوہ کو، 29 عشاریہ 16 روپے ہر ایک بیٹے کو، اور  14 عشاریہ 58 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

2- سائل نے والدِ مرحوم کے ترکہ سے گھر میں جو اضافی تعمیرات کرائی ہیں، ان سمیت مکمل مکان مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا، اور حصصِ شرعیہ کے تناسب سے تمام شرعی وارثوں میں تقسیم کیا جائے گا۔

3- شادیوں کے موقع پر جو اخراجات مرحوم کے ترکہ سے کیے گئے، اگر اس صراحت کے ساتھ  کیے گئےتھے کہ یہ میراث کے حصہ میں سے ہیں، تو اس صورت میں شادی کے وہ اخراجات جن میں صاحبِ حصہ کو مالک بنادیا گیا جیسے زیور، فرنیچر، کپڑے وغیرہ، میراث کے حصہ میں شمار کیے جائیں گے، اور اگر میراث کا حصہ ہونے کی صراحت نہ تھی اور سب بالغ ورثہ نے باہمی رضامندی سے اخراجات کیے تھے تو نقد  ترکہ میں سے مذکورہ اخراجات کی  رقم سب ورثاء کی طرف سے ہدیہ شمار ہوگی،  یعنی اصل ترکہ میں سے ہر ایک کے حصہ کے تناسب سے شادی پر کیے جانے والے اخراجات منہا کردیے جائیں گے اور ہر ایک کی طرف سے ہدیہ شمار ہوگا، پس ترکہ کی تقسیم کے وقت وہ رقم ترکہ سے منہا ہوگی۔

4- اور اگر دیگر ورثہ رضامند نہیں تھے تو اس صورت میں تمام اخراجات، کرنے والے کی جانب سے شمار ہوں گے، ترکہ سے منہا نہیں کیے جائیں گے۔

5- بقیہ نقد ترکہ  حصصِ شرعیہ کے تناسب سے   تمام وارثوں میں تقسیم ہوگا۔

6-  متروکہ گھر میں سائل کا جتنا حصہ بنتا ہے، تقسیم کے بعد اپنا حصہ اگر وہ فروخت کرنا چاہے تو فروخت کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ مکان میں سائل اور اس کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ ساتھ  سائل کے بھائی کا بھی حصہ ہوگا۔

ملحوظ رہے کہ پینشن چوں کہ شرعاً مرحوم کے ترکہ میں شامل نہیں، لہذا والدہ صاحبہ اس کی حق دار ہیں، ان کے علاوہ اس پر کسی کا حق نہیں۔

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

پینشن کس کی ملکیت ہے؟

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں