میری بیوی ایک سال سے مجھ سے ناراض ہے اور ایک قریبی رشتے دار سےناجائزتعلقات ہیں،اس کے گھر والے بھی اس کو منع نہیں کرتے،اس گناہ کاکوئی حل بتائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بیوی کے لیے نامحرم سے بات کرنا یا تعلقات رکھنا یقینًا انتہائی قبیح، ناجائز اور حرام ہے، لہٰذا اس گناہ سے فوراً سچے دل سے توبہ کی ضرورت اور ندامت و شرمندگی کا اظہار لازمی ہے،سائل کوبھی چاہیے کہ بیوی کی نگہبانی کرے،اس کی جائز خواہش حسب استطاعت پوری کرے اور اس کو اس قبیح کام سے روکنے کی ہرممکن کوشش کرے ، اگر ان سب کے باوجود بھی وہ اس قبیح کام سے باز نہیں آتی تو سائل کے لیے اس کو طلاق دیناجائزہے۔
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"وعن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي امرأةً لاترد يد لامس، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «طلقها» قال: إني أحبها قال: «فأمسكها إذاً».
(وعن ابن عباس قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي) : بفتح الياء وسكونها (امرأةً) : بالنصب على اسم إن (لاترد يد لامس) . أي: لاتمنع نفسها عمن يقصدها بفاحشة، (فقال النبي صلى الله عليه وسلم: (طلّقها): قال: إني أحبها. قال: (فأمسكها إذن): أي: فاحفظها لئلاتفعل فاحشةً، وهذا الحديث يدل على أن تطلق مثل هذه المرأة أولى، لأنه عليه الصلاة والسلام قدم الطلاق على الإمساك، فلو لم يتيسر تطليقها بأن يكون يحبها، أو يكون له منها ولد يشق مفارقة الولد الأم، أو يكون لها عليه دين لم يتيسر له قضاؤه، فحينئذ يجوز أن لايطلقها، ولكن بشرط أن تمنعها عن الفاحشة، فإذا لم يمكنه أن يمنعها عن الفاحشة يعصي بترك تطليقها".
(کتاب النکاح ، باب اللعان،5 /2171 ط:دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144307102002
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن