ایک شخص نے چار،پانچ مرغیاں پالی تھیں،ان کاجوبھی کام ہوتاتھامثلاًدانا ڈالنا،کھولنا،بندکرنا وغیرہ یہ سب وہ شخص اوراس کی بیوی دونوں مل کر کیاکرتے تھے،اس کی بیوی نے ایک مرتبہ اس کےساتھ بدتمیزی کی اورکہا کہ اب میں مرغیوں کاکوئی بھی کام نہیں کروں گی،اس بدتمیزی کی وجہ سے شوہر اوربیوی کے درمیان جھگڑا ہوا، لیکن بچوں نے وہ جھگڑا ختم کردیا،اس دوران شوہر نے بیوی سے کہا اپنے بھائی کو بلاؤ، تاکہ میں ان کو بتاؤں کہ تم نے کیا کیاہے؟(چوں کہ اس کے بھائی نے کہاتھاکہ اب یہ بدتمیزی کرے تومجھے بتانا،) بیوی نے کہا میرے گھر کا معاملہ ہےمیں خود سنبھالوں گی،اس کے بعد بیوی نے معافی بھی مانگ لی،لیکن شوہر کویقین تھاکہ وہ یہ بات اپنے بھائی کوبتائے گی اورکچھ جھوٹ اور کچھ سچ ملا کربتائے گی،اس طرح وہ پہلے بھی کرچکی ہے،شوہر نے کہا اگر تم نہیں بلاتی تومیں اسے فون کرتاہوں ،لیکن بیوی نے اسے منع کردیا،اس پر شوہر نے کہا کہ’’ آج کے بعد تم مرغیوں کاکوئی کام نہیں کروگی اوراگرتم نے میری اجازت کے بغیربھائیوں سے بات کی تومیری طرف سے تینوں طلاقیں ہوں گی‘‘،یہاں طلاق کی بات بھائیوں سے بات کرنے کے حوالے سےتھی،جس کی اجازت کچھ ہی عرصے میں دے دی تھی ،(اور اس کاگواہ شوہر کابھتیجاہے، جو بالغ اورماشاء اللہ سے حافظِ قرآن بھی ہے)کیوں کہ مرغیوں کو شوہر نے ایک یا دو دن میں آزاد کردیاتھا،پھروہ باہر کچی گلی میں رہتی تھی کبھی کبھار گھر کی گلی میں آجاتی ،نا تومرغیوں کو دانا،پانی دینا ہوتااورنہ ہی کھولنا بندکرناہوتا۔
کچھ دنوں کے بعد بیوی نے شوہر سے کہا کہ ایک غلطی ہوگئی ہے،کہ مرغی گھر کے زینہ میں آگئی تھی ، میں نے لکڑی سے نیچے بھگادیا،اب آپ مسئلہ معلوم کریں ،جس پر شوہر نے کہا کہ دیکھو میں نے طلاق کی بات بھائی سے رابطہ کرنے پر کی ہےاوردوسری بات یہ ہےکہ مرغیوں کو تم نے گھر سے نکالاہے اس کاکوئی کام نہیں کیاہے،بیوی نے یہ بات شوہر کے بہن بھائیوں سے بھی کی ،جس پر شوہر کوغصہ آیا اورکہا کہ اگر تمہیں یقین نہیں آتاتومیرے بھتیجے سے معلوم کرو،جب اسے بلایاگیا تواس نے حلفاً گواہی دی کہ شوہر نے بھائی سے رابطہ کرنے پر یہ بات کی ہے۔اور شوہر آج بھی اپنے اس بیان پر قائم ہے۔
1:کیا مرغی کوزینے سے غیرارادی طورپر لکڑی سے ہٹادینااورا گرکتے مرغیوں پرحملہ کردیں اوربیوی مرغیوں کو بچائے توکیایہ روزمرہ کے کاموں میں داخل ہوگا؟جب کہ شوہرنے اس پرطلاق کو نہیں لگایاتھا،بلکہ بھائیوں سے بات کرنے پرکہاتھااوراس پرایک گواہ بھی موجود ہے؟
2:بیوی کے بھائیوں نے حقائق بیان کیے بغیر فتوی لیاہے ،اس کی کیاحیثیت ہوگی؟
3:مذکورہ مسئلہ میں شوہر کی بات کااعتبارہوگا ؟جس پر گواہ بھی موجودہے،یابیوی کی بات مانی جائےگی؟ جب کہ شوہر اپنی بات پر حلفیہ بیان دینے کا تیار ہے۔
4:فرض کریں کہ اگر شوہر بیوی کو پابندکرے کہ اگر فلاں فلاں کام کیا توتمہیں ایک ساتھ تین طلاقیں واقع ہوں گی،پھر نادانستہ طورپر بیوی وہ کام کرلے توایک طلاق واقع ہوگی یاتین؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے اپنی بیوی سے اگر واقعۃ یہ کہا ہو کہ ’’ آج کے بعد تم مرغیوں کاکوئی کام نہیں کروگی اوراگرتم نے میری اجازت کے بغیربھائیوں سے بات کی تومیری طرف سے تینوں طلاقیں ہوں گی‘‘،اس جملہ میں چوں کہ سائل نے دوباتیں ذکر کی ہیں، مرغیوں کے کام سے ممانعت ہے یعنی کام سے منع کرنا ہےاور دوسرا طلاق کو معلق کرنا ہے ، دونوں جملے الگ الگ ہیں، جس کی وجہ سے پہلے جملے کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور دوسرے جملے میں چوں کہ سائل نے کہا ہے کہ :"آج کے بعد تم مرغیوں کاکوئی کام نہیں کروگی اوراگرتم نے میری اجازت کے بغیربھائیوں سے بات کی تومیری طرف سے تینوں طلاقیں ہوں گی"،اس میں بھائیوں سے بات کرنے کواجازت سے مشروط کیا ہے اور بلا اجازت بات پر طلاق کو معلق کیا ہے تو اگر بیوی نے سائل کی اجازت سے پہلے اپنے بھائیوں سے بات نہ کی ہو اور بعد میں سائل نے بات کرنے کی اجازت دے دی تھی تو اس سے کوئی طلاق نہیں ہوئی ہے۔
اب آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1:چوں کہ پہلے جملہ میں مرغیوں کی دیکھ بھال سے بیوی کو منع کیا گیا ہے لیکن طلاق کو اس پرمعلق نہیں کیا ، اس لیے اس جملہ کا تعلیقِ طلاق سے تعلق نہیں ہے۔
2:منسلکہ فتوی میں جو سوالات تحریر ہیں وہ اس مذکورہ سوال سے بالکل جدا ہیں، منسلکہ فتوی ذکر کیے گئے سوالات کے موافق ہے ۔
البتہ سائل نے یہاں دارالافتاء میں جو سوال تحریر ی جمع کروایا ہے اس کا جواب مذکورہ بالا تفصیل کے موافق لکھ دیا گیا ہے۔
3:شوہر اور بیوی کا تعلیقِ طلاق میں اختلاف ہوجائے اور بیوی کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو اس صور ت میں شوہر کی بات معتبر ہوگی۔
4:جس کام کے ساتھ طلاق کومعلق کیا ہےوہ کام کسی بھی طورپر ہوجائے خواہ جان کرہو یاجان بوجھ کربہر صورت شرط پوری ہوگی اورجتنی طلاقیں مشروط کی ہووہ واقع ہوجاتی ہیں۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"فإن كان[يعني العطف] بالواو بأن قال إن دخلت هذه الدار ودخلت هذه الدار فأنت طالق أو قال أنت طالق إن دخلت هذه الدار ودخلت هذه الدار فهذا وما إذا كرر حرف العطف بدون الفعل سواء؛ لأن الواو للجمع المطلق فيقتضي اجتماع الشرطين فيستوي فيه إعادة الفعل وعدم الإعادة...
ولو عطف الحالف على يمينه بعد السكوت فالأصل فيه ما روي عن أبي يوسف أنه قال إذا عطف على يمينه بعد السكوت ما يوسع على نفسه لم يقبل قوله كما لا يقبل في الاستثناء بعد السكوت وإن عطف بما شدد على نفسه جاز وإذا ثبت هذا الأصل فقال ابن سماعة سمعت أبا يوسف قال في رجل قال إن دخلت فلانة الدار فهي طالق ثم سكت سكتة ثم قال وهذه يعني امرأة له أخرى فإنها تدخل في اليمين؛ لأن الواو للجمع فكأنه قال وهذه طالق إن دخلت تلك الدار وفي هذا تشديد على نفسه، وكذلك إن قال إن دخلت هذه الدار لأنه عطف على الشرط وفيه تشديد؛ لأن هذا يقتضي وقوع الطلاق على الأولى بدخول كل واحدة من الدارين وفي هذا تشديد على نفسه وكذلك لو نجز فقال هذه طالق ثم سكت ثم قال وهذه طلقت الثانية؛ لأنه جمع بينهما في الإيقاع وهذا تشديد على نفسه، ولو قال لامرأته أنت طالق إن دخلت الدار ثم سكت ثم قال وهذه يعني دارا أخرى فليس له ذلك فإن دخلت الأولى طلقت؛ لأن قوله وهذه يعني دارا أخرى يقتضي زيادة في شرط اليمين الأولى لأنه إذا علق الطلاق بدخول دارين لا يقع بإحداهما وهو لا يملك تغيير شرط اليمين بعد السكوت ولأن في هذا توسيعا على نفسه فلا يجوز بعد السكوت كالاستثناء، والله عز وجل أعلم."
(كتاب لأيمان، فصل في حكم اليمين، ج:3، ص:35/31، ط:دار الكتب العلمية)
فتح القدیرمیں ہے:
"(وإن اختلفا في وجود الشرط فالقول قول الزوج إلا أن تقيم المرأة البينة) لأنه متمسك بالأصل وهو عدم الشرط، ولأنه ينكر وقوع الطلاق وزوال الملك والمرأة تدعيه (فإن كان الشرط لا يعلم إلا من جهتها فالقول قولها في حق نفسها.
(قوله وإن اختلفا في وجود الشرط فالقول قول الزوج، إلا أن تقيم المرأة البينة لأنه متمسك بالأصل وهو عدم الشرط ولأنه ينكر وقوع الطلاق) وعلى هذا لو قال: إن لم تدخلي اليوم فأنت طالق فقالت: لم أدخل وقال: دخلت فالقول له وإن كانت متمسكة بالأصل وهو عدم الدخول. ولو قال: إن لم أجامعك في حيضتك فأنت طالق فقالت: لم يجامعني وقال: فعلت فالقول له مع أنها متمسكة بظاهرين عدم الجماع وحرمته في الحيض الداعية إلى عدمه لكونه أنكر الطلاق واستحضر هنا ما في النكاح. لو قال: بلغك الخبر فسكت وقالت: رددت القول قوله."
(كتاب الطلاق، باب الأيمان في الطلاق، ج:4، ص:125، ط:دار الفكر)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"لأن الجهالة لا تمنع انعقاد اليمين."
(كتاب الطلاق، باب الإيلاء، ج:7، ص:26، ط:دارا لمعرفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144605100922
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن