بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے پیچھے کی جانب سے جماع کرنا


سوال

 میں شادی شدہ ہوں لیکن مجھے ایک خواہش نے بڑا تنگ کیا ہے،  مجھے مقعد کی طرف سے جماع کی بہت زیادہ خواہش ہے لیکن میں نے سنا ہے کہ یہ منع ہے، کیا اپنی بیوی کے ساتھ اس انتہائی زیادہ مجبوری میں اس طرح جماع کی کچھ گنجائش بن سکتی ہے؟

جواب

 بیوی سے   بدفعلی (پیچھےکی جانب میں  صحبت کرنا)  عقلاً، طبعًا اور  شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے، اس کی حرمت اور مذّمت قرآن پاک کی  آیات اور  کئی احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں،  یہ شرک کے بعد بڑے گناہوں میں  سےسنگین ترین گناہ ہے،  اور اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کا اوراُس کی رحمت سے دوری کا باعث ہے ،  شرعا یہ عمل ناجائز اور حرام ہے،  کسی  بھی حالت میں اس کی گنجائش نہیں ہے،  البتہ پیچھے کی طرف سے آکر، اگلی شرم  گاہ میں جماع کرنے  کی ممانعت نہیں ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ملعون من أتى امرأته في دبرها."

(490/3، کتاب النکاح، باب في جامع النكاح، ط: دارالرسالة العلمیة)

ترجمہ:"اُس شخص پر (اللہ کی )لعنت ہے جو اپنی بیوی کے پاس اُس کی پیچھے کی جانب میں آئے"۔

مسندِاحمد  میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الذي يأتي امرأته في دبرها لاينظر الله إليه."

(399/7، ابتداء مسند ابی ھریرۃ، ط: دارالحدیث القاھرۃ)

ترجمہ:"جو شخص اپنی بیوی کے پاس پیچھے کی جانب میں آتا (صحبت کرتا)ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) وطؤها (يكفر مستحله) كما جزم به غير واحد، وكذا مستحل وطء الدبر عند الجمهور مجتب (وقيل لا) يكفر في المسألتين، وهو الصحيح خلاصة (وعليه المعول) ؛ لأنه حرام لغيره ولما يجيء في المرتد أنه لا يفتى بتكفير مسلم كان في كفره خلاف، ولو رواية ضعيفة.

(قوله: و كذا مستحل وطء الدبر) أي دبر الحليلة، أما دبر الغلام فالظاهر عدم جريان الخلاف في التكفير وإن كان التعليل الآتي يظهر فيه ط: أي قوله؛ لأنه حرام لغيره. أقول: وسيأتي في كتاب الإكراه أن اللواطة أشد حرمة من الزنا؛ لأنها لم تبح بطريق ما لكون قبحها عقليا، ولذا لا تكون في الجنة على الصحيح. اهـ (قوله: خلاصة) لم يذكر في البحر عن الخلاصة مسألة وطء الدبر (قوله: فلعله يفيد التوفيق) أي بحمل القول بكفره على استحلال اللواطة بغير المذكورين والقول بعدمه عليهم (قوله؛ لأنه حرام لغيره) أي حرمته لا لعينه، بل لأمر راجع إلى شيء خارج عنه و هو الإيذاء. قال في البحر عن الخلاصة: من اعتقد الحرام حلالا أو على القلب يكفر إذا كان حرامًا لعينه وثبتت حرمته بدليل قطعي. أما إذا كان حرامًا لغيره بدليل قطعي أو حرامًا لعينه بإخبار الآحاد لايكفر إذا اعتقده حلالًا. اهـ و مثله في شرح العقائد النسفية ."

(1/ 297، باب الحيض، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101079

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں