بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے بات کرتے ہوئے ڈائری میں طلاق طل ق اور طلافہ لکھنا


سوال

میں اور میرے شوہر کسی بات پر باتیں کررہے تھے کہ  آپس میں باتوں کے دوران میں نے کہا کہ اگر میرے بچے نہ ہوتے تو میں آپ کے ساتھ نہیں رہتی تو انہوں نے ڈائری اور پنسل ساتھ رکھی تھی، اس کو اٹھاکر اس میں لکھا: ” طلاق، طل ق (جان بوجھ کر الف کے بغیر لکھا) اور طلافہ (آخر میں ف اور ھاء کے ساتھ لکھا، ق نہیں لکھا)“ تو میں نے کہا یہ کیا لکھا ہے، دماغ خراب ہے تو انہوں نے کہا کہ میں مذاق کررہا ہوں، اسی لیے غلط لکھا ہے، تاکہ یہ سچ نہ  ہو،  نہ تو انہوں نے یہ الفاظ زبان سے کہے،اس سارے معاملہ  میں نہ ان کی نیت تھی اور نہ میری، اب دل میں شک پڑگیا ہے، اس سے طلاق ہوگئی یا نہیں ؟

شوهر  كو دارالافتاء بلاكر وضاحت  لی تو اس نے یہ بیان دیا کہ: میری طلاق کی نیت نہیں تھی، میں نے ایسے ہی  بیوی کے لیے  یہ الفاظ لکھے تھے، طلاق کا لفظ بیوی ہی کے لیے تو لکھا جاتا ہے۔

جواب

صورت ِ مسئولہ میں جب  سائلہ کے شوہر  نے  اس سے بات کرتے ہوئے بیوی کے لیے   ڈائری میں ” طلاق، طل ق ( الف کے بغیر) اور طلافہ (آخر میں ف اور ھاء کے ساتھ )“  لکھا تو  ابتدائی دو لفظوں سے دو طلاقیں واقع ہوگئی ہیں،  اور آخر لفظ ”طلافہ “ سے طلاق واقع نہیں ہوئی، اب  سائل کو  بیوی کی عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش  تک) میں رجوع کا حق ہے، اگر عدت کے دوران  رجوع کرلیا   تو دونوں کا نکاح برقرار رہے گا، اور  رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کو  زبان سے کہہ دے کہ : ”میں نے رجوع کرلیا“ ،اس سے قولی طور پر رجوع ہوجائے گا،اور اگر زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ بیوی سے تعلق قائم کرلے یاخواہش و رغبت سے اسے چھوئے یابوسہ لے لے، اس سے بھی رجوع ہوجائے گا، لیکن یہ فعلی رجوع مکروہ ہے، حاصل یہ ہے کہ قولاً یاعملاً رجوع کرلیناکافی ہے، البتہ قولی رجوع کرنا اوراس پر  دو گواہ بنانا   مستحب ہے۔

 اگر  بیوی کی عدت میں رجوع نہیں کیا  یعنی  طلاق کے بعد  عدت کی تیسری ماہ واری گزرگئی تو اس صورت میں   دونوں کا نکاح ختم ہوجائے گا، مطلقہ  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔اس کے بعد  اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے  دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو شرعی گواہان کی موجودگی میں  نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے  رہ سکتے ہیں ، دونوں صورتوں میں  ( رجوع یا تجدید نکاح کے بعد      آئندہ کے لیے شوہر کو صرف ایک طلاق کا  حق حاصل ہوگا، اگر مزید ایک بھی طلاق دی تو بیوی حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و لايلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبًا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لاتطلق ديانةً اهـ وما في التحفة لايخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبًا لايقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحًا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلايخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال: طلقت امرأة ثلاثًا و قال: لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها."

(3 / 248، کتاب الطلاق، باب الصریح، ط: سعید)

وفيه أيضاّ:

"(ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى.

 مطلب من الصريح الألفاظ المصحفة

(قوله: و يدخل نحو طلاغ و تلاغ إلخ) أي بالغين المعجمة. قال في البحر: و منه الألفاظ المصحفة و هي خمسة فزاد على ما هنا ثلاثًا. و زاد في النهر إبدال القاف لامًا. قال ط: و ينبغي أن يقال: إن فاء الكلمة إما طاء أو تاء واللام إما قاف أو عين أو غين أو كاف أو لام واثنان في خمسة بعشرة تسعة منها مصحفة، وهي ما عدا الطاء مع القاف اهـ."

(3 / 248، مطلب من الصريح الألفاظ المصحفة، كتاب الطلاق، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307100006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں