بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے بدفعلی سے نکاح کا حکم اور ایسی صورت میں بیوی کے لیے طلاق لینا


سوال

ایک شوہر   اپنی بیوی سے لواطت کرتا ہے  تو کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے،   اگر بار بار اس کام پر مجبور کرے تو بیوی طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے ؟ مزید یہ کہ بیوی کے لیے  آگے زندگی کس طرح گزارنی چاہیے؟

جواب

 واضح رہے کہ بیوی سے   بدفعلی (پیچھےکی جانب میں  صحبت کرنا)  عقلاً، طبعًا اور  شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے، اس کی حرمت اور مذّمت قرآن پاک کی کئی آیات اور احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں،  یہ شرک کے بعد بڑے گناہوں میں  سےسنگین ترین گناہ ہے،  اور اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کا اوراُس کی رحمت سے دوری کا باعث ہے ،اس پر صدقِ دل سے توبہ واستغفار لازم ہے، تاہم اس سے بیوی حرام نہیں ہوگی۔

لہٰذا  صورت ِ مسئولہ میں اگر شوہر واقعۃ ً  بیوی کو مذکورہ فعل پر مجبور کرتاہےتو وہ سخت گناہ گار ہے،بیوی کے لیےبھی اُس کو مذکورہ فعل پر قدرت  دیناجائز نہیں ہے،اگر وہ اس فعلِ بد پر اصرار کرے تو پہلے اس کو حکمت سے سمجھائے،پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس مسئلہ کو دونوں خاندانوں کےبڑوں کے  سامنے رکھے،  اُسے  راہِ راست پر لانے کی کوشش کرے ،لیکن اس کے باوجود اگر وہ باز نہیں آتا اوربدستور ا س فعلِ بد پر مصِر ہو تو ایسی صورت میں عورت  شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے،اگر وہ طلاق نہ دے تو اس کو کچھ مال وغیرہ دے کر خلع پر رضامند کرلے، شوہر کے لیے خلع کے بدلے میں مال لینا جائز نہیں ہوگا، تاہم شو ہر کے مال  کے بدلے میں خلع دینے سے  بھی خلع ہوجائے گا اور اگر وہ خلع دینے پر بھی راضی نہ ہو اور اس برے عمل سے بھی باز نہ آئے تو بیوی عدالت سے تنسیخِ نکاح کی ڈگری حاصل کرے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ملعون من أتى امرأته في دبرها."

(490/3، کتاب النکاح، باب في جامع النكاح، ط: دارالرسالۃ العلمیة)

ترجمہ:"اُس شخص پر (اللہ کی )لعنت ہے جو اپنی بیوی کے پاس اُس کی پیچھے کی جانب میں آئے"۔

مسندِاحمد  میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الذي يأتي امرأته في دبرها لاينظر الله إليه."

(399/7، ابتداء مسند ابی ھریرۃ، ط: دارالحدیث القاھرۃ)

ترجمہ:"جو شخص اپنی بیوی کے پاس پیچھے کی جانب میں آتا (صحبت کرتا)ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) وطؤها (يكفر مستحله) كما جزم به غير واحد، وكذا مستحل وطء الدبر عند الجمهور مجتب (وقيل لا) يكفر في المسألتين، وهو الصحيح خلاصة (وعليه المعول) ؛ لأنه حرام لغيره ولما يجيء في المرتد أنه لا يفتى بتكفير مسلم كان في كفره خلاف، ولو رواية ضعيفة.

(قوله: وكذا مستحل وطء الدبر) أي دبر الحليلة، أما دبر الغلام فالظاهر عدم جريان الخلاف في التكفير وإن كان التعليل الآتي يظهر فيه ط: أي قوله؛ لأنه حرام لغيره. أقول: وسيأتي في كتاب الإكراه أن اللواطة أشد حرمة من الزنا؛ لأنها لم تبح بطريق ما لكون قبحها عقليا، ولذا لا تكون في الجنة على الصحيح. اهـ (قوله خلاصة) لم يذكر في البحر عن الخلاصة مسألة وطء الدبر (قوله فلعله يفيد التوفيق) أي بحمل القول بكفره على استحلال اللواطة بغير المذكورين والقول بعدمه عليهم (قوله؛ لأنه حرام لغيره) أي حرمته لا لعينه، بل لأمر راجع إلى شيء خارج عنه وهو الإيذاء. قال في البحر عن الخلاصة: من اعتقد الحرام حلالا أو على القلب يكفر إذا كان حراما لعينه وثبتت حرمته بدليل قطعي. أما إذا كان حراما لغيره بدليل قطعي أو حراما لعينه بإخبار الآحاد لا يكفر إذا اعتقده حلالا. اهـ ومثله في شرح العقائد النسفية ."

(1/297، باب الحيض، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں