بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی پر بدکرداری کا الزام لگاکر گھر سے نکال دینا


سوال

میرے شوہر نے مجھے پچھلے ہفتہ  گھر سے نکال دیا ہے، مجھ پر بدکرداری کے الزامات لگائیں ہیں، اور ایسا ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ مجھ پر بدکرداری کے الزامات لگاتے ہیں اور پھر مجھے منا لیتے ہیں،  اس بار انہوں نے الزام لگاکر مجھے گھر سے نکال دیا ہے اور ساتھ یہ بھی الزام لگایا ہے کہ  میں نے اپنے شوہر اور اپنی ساس کو مارا ہے  جب کہ ایسا کچھ نہیں ہوا، میرے بچے مجھ سے چھین لیے، مجھے ملنے نہیں دیا جارہا، ایسی صورت میں اگر میں خلع لیتی ہوں تو کیا میں گناہ گار ہوں گی۔

 

جواب

سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو  شوہر کا یہ رویہ  اور سلوک انتہائی  قبیح  ، ناجائز اور حرام ہے۔ کسی شرعی ثبوت کے بغیر  کسی پر بدکاری یا ناجائز تعلق  کی تہمت لگانا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، اور عورت پاک دامن ہو تو اس  پر تہمت کا گناہ عام شخص پر تہمت سے بھی سخت ہے، اگر شوہر اپنی بیوی پر بدکاری کی تہمت لگاتا ہے تو  شرعی عدالت کی موجودگی  میں "لعان" ہوگا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ  شوہر اگر اپنی بیوی کو زنا کرتا ہوا دیکھ لیتا ہے اور اس کو معتبر شرعی گواہوں سے ثابت نہیں کر پاتا   تو اس صورت میں  لعان کا حکم ہے اور لعان  یہ ہے کہ:

شوہر چار دفعہ قسم کھائے گا کہ: ’’میں  اپنی بات میں سچا ہوں، اورپانچویں بار یون کہے گ  اگر میں اپنے اس دعوی میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو‘‘۔

 اسی طرح چوں کہ بیوی کی بدکاری کی تہمت پر شرعی نصاب گواہی مکمل نہیں، بلکہ صرف شوہر کا دعوی  ہے، اس لیے بیوی  کو سنگ سار نہیں کیا جا سکتا، یعنی حد زنا جاری نہیں کی جا سکتی، تاہم شوہر کی تہمت کو اپنے سے دور کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو زنا کی حد سے بچانے کے لیے بیوی پر بھی لازم ہوتا ہے کہ وہ چارقسمیں کھائے، کہ: ’’میرا شوہر جھوٹا ہے، اور پانچویں بار کہےکہ اگر وہ سچا ہے مجھ پر اللہ کا غیظ وغضب نازل ہو‘‘۔

اگر دونوں میں سے کوئی ایک بھی قسم اٹھانے سے انکار کر دیتا ہے، تو اس پر حد جاری ہوگی، شوہر اگر قسم کھانے سے انکار کرتا ہے تو اس پر حد قذف جاری ہوگی، یعنی ۸۰ کوڑے لگائیں جائیں گے، اور اگر بیوی قسم کھانے سے انکار کرے گی تو اس پر حد زنا جاری ہوگی، یعنی اس کو سنگ سار کیا جائے گا۔

مندرجہ بالا طریقے سے زوجین میں لعان جاری ہونے کے بعد (یعنی اگر دونوں ہی قسم اٹھا لیں تو) آپس میں ازدواجی تعلق حرام ہو جاتا ہے، اس کے بعد یا تو شوہر طلاق دے دے، یا قاضی دونوں میں تفریق کر دے۔

 جہاں اسلامی حکومت اور شرعی سزائیں نافذ نہ ہوں تو ایسے شخص سے توبہ کروائی جائے اور اس نے جس شخص پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی طلب کرے۔نیز اگر  شرعی  سزائیں نافذ نہ ہوں تو عدالت  ایسے شخص کو تعزیری سزا بھی جاری کر سکتی ہے؛ تاکہ آئندہ ایسی غلطی کا ارتکاب نہ ہو۔

اور اگر "لعان" نہ ہو اور عورت  اپنے شوہر کو  کسی طرح راضی کرکے(مال وغیرہ دے کر) اس سے طلاق یا خلع لے لیتی ہے تو اس میں عورت گناہ گار نہیں ہوگی۔

نيز ماں كو بچوں سے نہ ملنے دینا گناہ اور زیادتی ہے، اگر میاں بیوی میں تفریق ہوجائے تب بھی لڑکے کی عمر سات سال اور لڑکی کی عمر نو سال ہونے تک اس کی پرورش کی حق دار اس کی ماں ہوتی ہے، اور اس کے بعد والد کا حق ہوتا ہے، اور بچے جس کی بھی پرورش میں ہوں  لیکن ماں یا باپ میں سے کسی اور ان سے ملنے سے منع کرنا درست نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 516)

"إذا التعنا فرق الحاكم بينهما ولا تقع الفرقة حتى يقضي بالفرقة على الزوج فيفارقها بالطلاق، فإن امتنع فرق القاضي بينهما، وقبل أن يفرق الحاكم لا تقع الفرقة، والزوجية قائمة، يقع طلاق الزوج عليها وظهاره وإيلاؤه، ويجري التوارث بينهما إذا مات أحدهما".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 488):

"(فإن التعنا) ولو أكثره (بانت بتفريق الحاكم) فيتوارثان قبل تفريقه (الذي وقع اللعان عنده) ويفرق (وإن لم يرضيا) بالفرقة".

الفتاوى الهندية (1 /514):

" اللعان عندنا: شهادات مؤكدات بالأيمان من الجانبين مقرونة باللعن والغضب قائمة مقام حد القذف في حقه ومقام حد الزنا في حقها، كذا في الكافي. إذا قذف امرأته مرات فعليه لعان واحد، كذا في المبسوط".

وفیه ايضا  (۵۱۴/۱):

"الباب الحادي عشر في اللعان:اللعان عندنا شهادات مؤكدات بالأيمان من الجانبين مقرونة باللعن والغضب قائمة مقام حد القذف في حقه، ومقام حد الزنا في حقها، كذا في الكافي ... حكمه: حرمة الوطء والاستمتاع لما فرغ من اللعان، ولكن لا تقع الفرقة بنفس اللعان حتى لو طلقها في هذه الحالة طلاقاً بائناً يقع، وكذا لو أكذب الرجل نفسه حل الوطء من غير تجديد النكاح، كذا في النهاية. قال أبو حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى: الفرقة الواقعة في اللعان فرقة بتطليقة بائنة؛ فيزول ملك النكاح وتثبت حرمة الاجتماع والتزويج ما دام على حالة اللعان، كذا في البدائع".

صحيح ابن حبان - محققاً (10/ 115):

"سهل بن سعد الساعدي أخبره، أن عويمر  العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الأنصاري، فقال له: يا عاصم، أرأيت لو أن رجلاً وجد مع امرأته رجلاً أيقتله فتقتلونه، أم كيف يفعل؟ سل لي يا عاصم عن ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فسأل عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فكره رسول الله صلى اللہ عليه وسلم تلك المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم ما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى أهله، جاءه عويمر، فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عاصم لعويمر: لم تأتني بخير، قدكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسألة التي سألته عنها، فقال عويمر: والله لا أنتهي حتى أسأله عنها، فجاء عويمر ورسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قد أنزل فيك وفي صاحبتك، فاذهب فأت بها» ، فقال سهل: فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغا من تلاعنهما، قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها، فطلقها ثلاثاً قبل أن يأمره رسول الله صلى الله عليه وسلم".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں