بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو طلاق کی نیت سے یہاں سے جائے کہنا


سوال

میرے شوہر نے مجھے گواہوں کے سامنے کہا کہ  ’’یہ یہاں سے  جائے، یہ یہاں سے  جائے، یہ یہاں سے  جائے‘‘  تین بار ۔’’میں اس کو  طلاق  اد کی ماں کے گھر بھیج دوں گا‘‘۔  اور تینوں بار نیت طلاق کی ہو،تو اس میں کتنی طلاق ہوگئی  ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں اگر واقعتًا  شوہر  نے  طلاق  کی نیت  سے بیوی کو یہ کہا ہو کہ   ’’یہ یہاں سے  جائے، یہ یہاں سے  جائے، یہ یہاں سے  جائے‘‘    تو اس میں طلاق کی نیت سے  پہلے جملے   ”یہ یہاں سے جائے“  کہنے سے ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی، اس کے بعد مزید  دو مرتبہ  ”یہ یہاں سے جائے، یہ یہاں سے جائے“ کہنے سے  مزید طلاق واقع نہیں ہوئی۔

اس کے بعد جو جملہ کہا: ’’میں اس کو  طلاق  اد کی ماں کے گھر بھیج دوں گا‘‘، یہ واضح نہیں ہے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ اگر  مستقل طور پر  یہ کہا کہ ”میں نے اس کو طلاق دی“ تو  اس سے ایک اور طلاق واقع ہوکر دو طلاق بائن  واقع ہوگئی  ہیں، دونوں کا نکاح ختم  ہوگیا۔

اب  اگر  دونوں  دوبارہ  باہمی  رضامندی  سے ایک  ساتھ  رہنا  چاہتے  ہیں تو  گواہوں کی موجودگی  میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کا عقد کرکے رہ سکتے ہیں، اور آئندہ کے لیے شوہر کو ایک طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

اور اگر مذکورہ جملے سے کچھ اور مراد ہے تو وضاحت کرکے دوبارہ سوال ارسال کیا جاسکتاہے۔ 

البحر الرائق(3/ 326):

’’(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك، قيد باقتصاره على اذهبي؛ لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لا يقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى،كذا في الخلاصة."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 306):

"(الصريح يلحق الصريح و) يلحق (البائن) بشرط العدة (والبائن يلحق الصريح) الصريح ما لا يحتاج إلى نية بائنا كان الواقع به أو رجعيا فتح ... (لا) يلحق البائن (البائن)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں