مجھے بیوی کبھی بہت تنگ کرتی ہے کہ مجھے باپ کے گھر جانا ہے، میں اجازت دیتا ہوں تو وہ زیادہ دن گزارنے کا مطالبہ کرتی ہے، میں تنگ آکر اسے کہتا ہوں کہ ”اگر تو نے اتنے دن سے زیادہ دن گزارے تو میں تمہیں طلاق دوں گا“ پھر ہم کبھی کسی بات پر راضی ہوجاتے ہیں، اور کبھی نہیں، تو کیا اس گفتگو سے طلاق وغیرہ کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ الفاظ کہ ”اگر تو نے اتنے دن سے زیادہ دن گزارے تو میں تمہیں طلاق دوں گا“ یہ طلاق کی دھمکی اور وعدہ ہے، اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔
البتہ اگر اس طرح جملہ کہا جائے کہ ”اگر تو نے اتنے دن سے زیادہ دن گزارے تو تمہیں طلاق ہے“ وغیرہ، جس میں طلاق کا انشاء اور اس کے واقع کرنے کا معنی ہو، اور مستقبل کے الفاظ نہ ہوں تو اس صورت میں اس جملہ سے اس شرط پر طلاق معلق ہوجائے گی اور بیوی اگر اس سے زیادہ دن گزارے گی تو اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی، اس لیے اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"فِي الْمُحِيطِ: لَوْقَال بِالْعَرَبِيَّةِ: أُطَلِّقُ، لَايَكُون طَلَاقًا إلَّا إذَا غَلَبَ اسْتِعْمَالُهُ لِلْحَال؛ فَيَكُون طَلَاقًا".
(1/384، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسیة، ط: رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200429
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن