میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہوا، اس دوران بیوی نے طلاق کا مطالبہ کیا اور بیوی نے ناشائستہ حرکات مثلاً کپڑے پھاڑ دیے ، چیخی چلائی تو شوہر نے مجبور ہو کر زبان سے تین مرتبہ یہ کلمات کہے: طلاق ہے ،طلاق ہے ،طلاق ہے، اب پوچھنا یہ کہ کتنی طلاقیں واقع ہو گئی؟ اور میاں بیوی دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو اس کی کیا صورت ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعتاً شوہر نے بیوی سے لڑائی جھگڑے کے دوران یہ کہا کہ : ”طلاق ہے ،طلاق ہے ،طلاق ہے“ تو اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں، نکاح ختم ہوگیا ہے، بیوی، شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لیے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔مطلّقہ اپنی عدت (مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح میں آزاد ہوگی ۔
البتہ اگر مطلّقہ عدت گزرنے کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرلے، پھر وہ دوسرا شخص اس سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے یا عورت خود طلاق لے لے یا شوہر کا انتقال ہوجائے تو پھر اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر سےدوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا يلزم كون الإضافة صريحة في كلامه؛ لما في البحر لو قال: طالق فقيل له من عنيت؟ فقال امرأتي طلقت امرأته. اهـ. على أنه في القنية قال عازيا إلى البرهان صاحب المحيط: رجل دعته جماعة إلى شرب الخمر فقال: إني حلفت بالطلاق أني لا أشرب وكان كاذبا فيه ثم شرب طلقت. وقال صاحب التحفة: لا تطلق ديانة اهـ وما في التحفة لا يخالف ما قبله لأن المراد طلقت قضاء فقط، لما مر من أنه لو أخبر بالطلاق كاذبا لا يقع ديانة بخلاف الهازل، فهذا يدل على وقوعه وإن لم يضفه إلى المرأة صريحا، نعم يمكن حمله على ما إذا لم يقل إني أردت الحلف بطلاق غيرها فلا يخالف ما في البزازية ويؤيده ما في البحر لو قال: امرأة طالق أو قال طلقت امرأة ثلاثا وقال لم أعن امرأتي يصدق اهـ ويفهم منه أنه لو لم يقل ذلك تطلق امرأته، لأن العادة أن من له امرأة إنما يحلف بطلاقها لا بطلاق غيرها"
(کتاب الطلاق، باب الصریح، 3 / 248، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، 3 /187، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608100619
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن