بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو جاؤ، میں نے آپ کو فارغ کیا ہے اور آپ کو آزاد کردیا ہے کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

ایک آدمی نے غصہ کی حالت میں اپنی بیوی سے کہا : جاؤ، میں نے آپ کو فارغ کیا ہے اور آپ کو آزاد کردیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس سے طلاق واقع ہوئی  یا نہیں؟ اور کون سی طلاق واقع ہوگئی ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کو یہ کہا  کہ : ”جاؤ، میں نے آپ کو فارغ کیا ہے اور آپ کو آزاد کردیا ہے“  تو اس سے اس کی بیوی پر    ایک طلاقِ  بائن واقع ہوگئی، اور دونوں کا  نکاح ختم ہوگیا ہے،بیوی پر عدت ( مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک)  گزارنا لازم ہوگا،اور وہ  اپنی عدّت  مکمل کر  کے آزاد ہوگی، دوسری جگہ نکاح کرنا چاہے تو  کرسکتی ہے۔

 البتہ اگر  دونوں میاں بیوی ہی  دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں  کسی بھی وقت (عدت کے دوران   اور عدت کے بعد بھی)  دو گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ تجدید نکاح کرکے رہ سکتے ہیں، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں  کا حق حاصل ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وكونه التحق بالصريح للعرف لاينافي وقوع البائن به، فإن الصريح قد يقع به البائن كتطليقة شديدة ونحوه: كما أن بعض الكنايات قد يقع به الرجعي، مثل اعتدي واستبرئي رحمك وأنت واحدة.

والحاصل أنه لما تعورف به الطلاق صار معناه تحريم الزوجة، وتحريمها لا يكون إلا بالبائن، هذا غاية ما ظهر لي في هذا المقام، وعليه فلا حاجة إلى ما أجاب به في البزازية من أن المتعارف به إيقاع البائن، لما علمت مما يرد عليه، والله سبحانه وتعالى أعلم".

(كتاب الطلاق، باب الکنایات، 3 /300، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"( الصريح يلحق الصريح و ) يلحق ( البائن ) بشرط العدة ( والبائن يلحق الصريح ) الصريح ما لايحتاج إلى نية بائناً كان الواقع به أو رجعياً ··· فتح ( لا ) يلحق البائن (البائن).

"(قوله: لايلحق البائن البائن ) المراد بالبائن الذي لايلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح.  وقيد بقوله: الذي لايلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولاً أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال وحينئذٍ فيكون المراد بالصريح في الجملة الثانية أعني قولهم: والبائن يلحق الصريح لا البائن هو الصريح الرجعي فقط دون الصريح البائن ...  ومنها ما في الكافي للحاكم الشهيد الذي هو جمع كلام محمد في كتبه ظاهر الرواية حيث قال: وإذا طلقها تطليقةً بائنةً ثم قال لها في عدتها: أنت علي حرام أو خلية أو برية أو بائن أو بتة أو شبه ذلك وهو يريد به الطلاق لم يقع عليها شيء؛ لأنه صادق في قوله: هي علي حرام وهي مني بائن اهـ أي لأنه يمكن جعل الثاني خبراً عن الأول، وظاهر قوله: طلقها تطليقةً بائنةً أن المراد به الصريح البائن بقرينة مقابلته له بألفاظ الكناية، تأمل". 

(كتاب الطلاق، باب الكنايات، 3/ 307، 308، ط: سعيد) 

بدائع الصنائع  میں ہے: 

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضاً حتى لايحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولايجري اللعان بينهما ولايجري التوارث ولايحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية." 

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، 3/ 187، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144607100194

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں