مجھے بیوی کبھی بھت تنگ کرتی ہے، میں انہیں اکثر کہتا ہوں کہ گھر جاؤ، تم ادھر خوش رہو، مجھے ادھر آرام سے رہنے دو، اکثر وہ مطالبات کرتی ہے، کبھی بار بار باپ کے گھر جانے پر اکثر اس پر لڑائی ہوتی ہے، میں کہتا ہوں اگر ادھر آپ کی خوشی ہے تو خدا کے لیے چلی جاؤ، میں بھی اس پر خوش ہوں ادھر میرے گھر پر کیا کرتی ہوں، اس طرح کے جملے کہنے کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں آپ نے جو اپنی بیوی کو کہے ہوئے جملہ ذکر کیے ہیں، مثلًا ” گھر جاؤ“، ”چلی جاؤ“ وغیرہ، تو یہ کنایہ الفاظ ہیں، اگر ان جملوں سے طلاق کی نیت ہو تو طلاقِ بائن واقع ہوجاتی ہے اور اگر ان سے طلاق کی نیت نہ ہو تو بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوتی، لہذا اگر آپ نے طلاق کی نیت کے بغیر یہ جملے کہے ہیں تو اس سے آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔
البحر الرائق(3/ 326):
’’(قوله: اخرجي اذهبي قومي) لحاجة أو لأني طلقتك، قيد باقتصاره على اذهبي؛ لأنه لو قال: اذهبي فبيعي ثوبك لايقع، وإن نوى، ولو قال: اذهبي إلى جهنم يقع إن نوى،كذا في الخلاصة، ولو قال: اذهبي فتزوجي، وقال: لم أنو الطلاق لم يقع شيء؛ لأن معناه تزوجي إن أمكنك وحل لك، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان‘‘.
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200430
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن