بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو دماغی خیالات میں طلاق کا سوچ کر ”جاؤ“ کہنا


سوال

 اگر کوئی طلاق کے بارے میں سوچ رہا ہو اور اس کي  زبان سے "جاؤ "  کا لفظ نکل جائے، تو کیا طلاق واقع ہوجائے گي؟  بات یہ  ہے کہ مجھے سرعت انزال کا سامنا ہے جس کے علاج  کے لیے مجھے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا، مگر جانے سے پہلے میں ایسے ہی سوچنے لگا کہ میں ڈاکٹر کے پاس پہنچا اور وہ میری شرمگاہ دیکھ کر کہنے لگا کہ اس کا علاج نہیں ہوسکتا، اس کے بعد خیالات ہی کی دنیا میں میں گھر پہنچ کر بیوی کا نام  لے کر کہتا ہوں: " جاؤ " ( میرا مطلب یہ ہوتا  ہے کہ میں جماع کے قابل نہیں تم یہاں سے جاکر کسی اور سے نکاح کرسکتی ہو ،  لیکن مجھے ایسا لگتا  ہے کہ "جاؤ"  کا لفظ میری زبان سے نکل گیا تھا، باقی سارے خیالات ہیں ،کیا ایسی صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی؟ جب کہ ابھی میں نے ڈاکٹر کو دکھایا بھی نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  محض طلاق کا خیال آنے سے یا وسوسہ آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی، بلکہ طلاق  دینے سے واقع  ہوتی ہے اور  طلاق دینا اس وقت ہوتاہے جب انسان زبان سے   طلاق کا صریح لفظ، یا طلاق کا کنایہ لفظ بیوی کی طرف نسبت کرکے کہتا ہے، اور اگر کنایہ لفظ کہتا ہے ، مثلًا "تم یہاں سے چلی جاؤ "،" نکل جاؤ" وغیرہ تو  اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ بیوی کو  طلاق دینے کی نیت بھی کی ہو، اور نیت کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے  ارادے کا نام ہے،  محض دماغی خیالات نیت کے درجہ میں نہیں ہوتے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق آپ کی بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی ہے،  اس لیے وسوسوں کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔

 وسوسوں سے حفاظت کے لیے ہر فرض نماز کے بعد قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201368

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں