بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو الگ رکھنے کی صورت میں والدین ناراض ہوتے ہوں تو کیا کرے؟


سوال

میری پچھلے سال 8 مئی کو شادی ہوئی لیکن بیگم اور امی کے درمیان نوک جھونک اور تلخ کلامی معمول بن گئی، اسی سال رمضان شریف میں میں افطاری کے بعد مغرب کی نماز ادا کرنے گیا تو میری بیوی اور امی کے درمیان تلخ کلامی اتنی بڑھ گئی کہ میری امی اور بہن نے ہمارے کمرے کے اندر آ کر میری بیوی کو مارا، میری بیوی نے کہا کہ میں نے اس گھر میں اب نہیں رہنا اور امی نے کہا میں نے اسے اس گھر میں رہنے نہیں دینا یہ میرے سامنے زبان درازی کرتی ہے، ستائیس رمضان کی صبح کو میرے والد صاحب نے ہمارے کمرے میں آکر میری بیوی کو ڈنڈوں سے ماراوہ اس لیے کہ یہ میری بیٹی کو گالیاں دیتی ہے، عید ہم نے کسی رشتہ دار کے گھر گزاری اور عید کے بعد سامان اٹھا لیااور علیحدہ ہوگئے۔

اب میرے لیے دو پریشانیاں ہیں ایک یہ کہ اب میرے والدین ناراض ہیں کہ تم نے بیوی کی طرفداری کی ہے میں گھر جاؤں تو امی بلاتی نہیں ہیں،  جبکہ میرے پاس اس کے علاوہ چارہ نہیں تھا پھر یہی آپشن تھا کہ والدین کی سائیڈ لیتااور بیوی میکے ناراض ہوکر چلی جاتی ، پہلی پریشانی والدین کی ناراضی اور دوسری یہ کہ اب میں علیحدہ گھر میں ہوں الحمدللہ متوسط آمدن ہے ،اچھا گھر چل جاتا ہے،لیکن والدین مالی طور پر کمزور ہیں ؛کیوں کہ چھوٹا بھائی بے روزگار ہے، میں علیحدہ گھر میں رہ کران کو مالی طور پر بالکل معقول قسم کی مالی سپورٹ کرسکتا ہوں ،ان دو پریشانیوں کی وجہ سے میں ذہنی طور پر ہروقت مفلوج رہتا ہوں، کہ میں بڑا بیٹاتھا کاش کہ ہم والدین کے ساتھ رہتے، اور ان کو مالی طور پر سپورٹ کرتے ،لیکن حالات نےاس نہج پر پہنچا دیاہے ، براہ مہربانی اس پریشانی میں میری رہنمائی فرمائیں!

جواب

اسلام نے ہرمسلمان کو تمام تعلق داروں سے حسن معاشرت کا حکم دیاہے، جیسے بیوی پرشوہر کے حقوق اور اس کے والدین کا احترام وتوقیر لازم ہے، اسی طرح شوہر کے ذمہ بھی بیوی کے حقوق لازم ہیں، اورشوہر کے والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ آنے والی بہو کو اپنی حقیقی بیٹی کی طرح سمجھتے ہوئے اس سے وہی سلوک وبرتاؤ رکھیں جو حقیقی بیٹی سے رکھتے ہیں، اس سلسلے میں جانبین کو  حقوق کے مطالبے کے بجائے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کرناچاہیے، بیوی کو چاہیے کہ  اپنی ساس کی ہر بات برداشت کرے،ان کی ہر نصیحت کا  خندہ پیشانی سے استقبال کرے،  یہ میاں بیوی دونوں کی سعادت اور اخروی نیک بختی ہے، یہ ہمت اور حوصلہ اور شوہر کے بزرگ والدین کے ساتھ رہ کر ان کے ساتھ اچھا برتاؤبیوی کو لائق رشک بنادیتا ہے، نیز اس کی برکتوں کا مشاہدہ پھر میاں بیوی خود بھی کرتے ہیں ،اس لیے میاں بیوی حتی الامکان اسی کی کوشش کریں کہ والدین کے ساتھ رہ کر ان کے ساتھ اچھا برتاؤ  کریں، اگر ان سے کوئی سخت یا ناروا بات بھی ہوجائے تو  اس پر صبر کریں اوراللہ سے اجر کی امید رکھیں۔

تاہم  اگربیوی میں اتنا حوصلہ نہیں کہ وہ ساس ،سسر کی باتوں اور ان کے رویہ پر صبر کر سکے ،یا  باہمی تنازعات اور لڑائی جھگڑے اس حد تک پہنچ گئےہیں ، کہ اب ایک ساتھ رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے،توشرعاً  بیوی کو والدین کے ساتھ رکھنا لازم نہیں، بلکہ شریعت نے عورت کو الگ رہائش کا حق دیاہے،  ایسی صورت میں شوہر کے والدین اور اس کی بیوی دونوں کے حق میں روز انہ کی  اذیت  اور مار پیٹ سے بہتر ہے کہ   میاں بیوی الگ رہائش اختیار کرلیں،   لیکن علیحدہ رہائش اختیار کرنے کے بعد بھی والدین سے قطع تعلق کرنا جائز نہیں۔

بیوی کے لیے الگ رہائش کا بندوبست ایک علیحدہ معاملہ ہے اور والدین کے ساتھ محبت کا اظہار اور ان کے  حقوق کی ادائیگی  ایک علیحدہ معاملہ ہے، اور والدین کے حقوق کی ادائیگی اولاد پر فرض بھی ہے۔ شوہر بیک وقت دونوں امور کو بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے، آدمی جس طرح  اپنے کاروبار اور ضروریات کے لیے  دن بھر گھر سے باہر رہتاہے، اسی طرح والدین کی خدمت ، ان کے حقوق کی ادائیگی کی ترتیب بھی بنائی جاسکتی ہے، آپ  خدمت اور حسن سلوک کے ذریعہ والدین کو راضی کرنے کی کوشش کرتے رہیں ،اور جتنی آپ میں استطاعت اور ہمت ہو  مالی طور پر بھی ان کی معاونت کریں ،آپ اپنی استطاعت سے زیادہ کے مکلف نہیں ہیں  ،  اللہ تعالی نے انسان کو اسی نظام سے منسلک پیدا کیا ہے ، اور اسی دنیا میں ان سب رشتوں اور  تعلقات کو نبھاتے ہوئے اس نے کامیاب زندگی گزارنی ہے، ان دونوں رشتوں کو ایک ساتھ لے کر چلنا، گو کہ ہمت اور شخصی استقلال چاہتا ہے، لیکن  یہ مشکل یا ناممکن نہیں ہے۔

 حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے اپنے مستند فتاوی "امدادالفتاوی" میں اس طرح کے مسائل کے حوالے سے جوکچھ لکھا ہے، اس میں سے چند حوالے  درج کیے جاتےہیں:

"سوال: (628) جناب نے ایک روز وعظ میں حقوق زوجین کے متعلق فرمایاتھاکہ زوجہ کا ایک یہ بھی حق ہے کہ اگر وہ خاوند کے والدین سے علیحدہ رہنا چاہے تواس کا منشا پورا کردینا واجب ہے اس کے ساتھ گزارش ہے کہ کلام مجید میں خدواندکریم کا یہ حکم ہے کہ سوائے شرک کے اورتمام امور میں والدین کا حکم مانو تویہ فرض ہوا، اب قابل دریافت یہ امرہے کہ والدین کی اگرمرضی نہیں ہے کہ بیوی کو ان سے علیحدہ رکھاجاوے اور زوجہ کی یہ مرضی ہے کہ ان سے علیحدہ رہے خواہ ایک ہی مکان میں ہو یاعلیحدہ مکان میں توکس طرح کرناچاہیے؟ اور اس کی بابت کیاحکم ہے؟ آیا پہلے فرض ادا کیاجائے یاواجب؟ براہ نوازش اس کی بابت مفصل تحریرفرماویں تاکہ آسانی سے سمجھ میں آجاوے۔

الجواب: السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

والدین کی اطاعت ترک واجب میں نہیں اور عورت کے یہ حقوق واجب ہیں، پس اگروالدین ان کے ترک کوکہیں توان کی اطاعت نہیں۔" (امدادالفتاوی، 2/526)

اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"چوں کہ شرعاً عورت کوحق حاصل ہے کہ شوہرکے ماں باپ سے علیحدہ رہے،اوراگروہ اپنے حق جائزکامطالبہ کرے گی توشوہرپراس کے حق کاادا واجب ہوگا۔اورواجب کاترک معصیت ہے،اورمعصیت میں کسی کی اطاعت نہیں،لہذا اس انتظام کونہ بدلیں"۔(امدادالفتاویٰ،2/525)

اسی نوعیت کے ایک مسئلہ سے متعلق حکیم العصرحضرت مولانامحمدیوسف لدھیانوی رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے:

"یوی کوعلیحدہ جگہ میں رکھنا(خواہ اسی مکان کاایک حصہ ہو،جس میں اس کے سوادوسرے کاعمل دخل نہ ہو)شوہرکے ذمے شرعاً واجب ہے،بیوی اگرخوشی سے شوہرکے والدین کے ساتھ رہناچاہے اوران کی خدمت کواپنی سعادت سمجھے توٹھیک ہے،لیکن اگروہ علیحدہ رہائش کی خواہش مند ہوتواسے والدین کے ساتھ رہنے پرمجبورنہ کیاجائے،بلکہ اس کی جائزخواہش کاجواس کا شرعی حق ہے ،احترام کیاجائے.....والدین کی خوشی کے لیے بیوی کی حق تلفی کرناجائزنہیں۔قیامت کے دن آدمی سے اس کے ذمے کے حقوق کامطالبہ ہوگااورجس نے ذرابھی کسی پرزیادتی کی ہوگی یا حق تلفی کی ہوگی مظلوم کواس سے بدلہ دلایاجائے گا۔بہت سے وہ لوگ جویہاں اپنے کوحق پرسمجھتے ہیں ،وہاں جاکران پرکھلے گاکہ وہ حق پرنہیں تھے،اپنی خواہش اورچاہت پرچلنادین داری نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پرچلنادین داری ہے"۔

(آپ کے مسائل اوران کاحل،والدین اوراولادکے تعلقات،والدین کی خوشی پربیوی کی حق تلفی ناجائزہے،جلد:8،صفحہ:572،ط:مکتبہ لدھیانوی کراچی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں