بیوی کا مہر بیوی کی رضامندی سے استعمال کرنا کیسا ہے؟ نیز یہ عمل خیر کا باعث بنتا ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ مہر بیوی کا حق ہوتا ہے، جسے بیوی کو ادا کرنا لازم ہوتا ہے، بیوی اس کی مالک ہوتی ہے، جیسے چاہے اسے اپنے استعمال میں لا سکتی ہے، شوہر یا کوئی بھی شخص بیوی کے مہر پر قبضہ نہیں کر سکتا ۔تاہم بیوی اپنی رضامندی سے بغیر کسی جبر کے اپنے مہر کی رقم اگر شوہر کو بطورِ قرض دے دے تو شوہر کے لیےاس کا لینا اور استعمال کرنا جائز ہے ،لیکن جیسے دیگر قرض خواہوں کو قرض کی رقم واپس کرنا واجب ہے، اسی طرح بیوی کو بھی طےشدہ مدت مقررہ میں ( اس کے مہر والی ) قرض کی رقم واپس کرنا لازم ہے،مدت مقررہ میں واپس نہ کرنا اور طلب کرنے پر ٹال مٹول کرنا ظلم ہو گا جو کہ ناجائز و حرام ہے۔اسی طرح بیوی اگر چاہے تو اپنے مہر کی رقم معاف یابلا عوض بھی شوہر کو مالک بنا کر دے سکتی ہے۔( البتہ شوہر کی جانب سے از خود مجبور کرنا اور قبضہ کرنا ناجائز و حرام ہے)
نیز : بیوی کے مہر کی رقم استعمال کرنا اگرجائز طریقے سے ہو گا، تو ان شاء اللہ خیر کا باعث ہو گا، کیوں کہ ہر جائز کام اللہ تعالیٰ کی رضا اور خیر کا باعث ہوتا ہے، اور اگر ناجائز طریقے پر ہو گا تو خیر کا باعث نہیں ہو گا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہو گا، اس لیے ہر ناجائز کام سے بچنا ضروری ہے۔
مسلم شریف میں ہے:
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعُ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ."
(کتاب المساقاۃ،باب تحریم مطل الغنی،ج1،ص18،ط:قدیمی)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وروي عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، أنه قال من کشف خمار امرأته ونظر إلیها وجب الصداق دخل بها، أو لم یدخل وهذا نص في الباب."
( کتاب النکاح، فصل و أما بیان مایتاکد به المهر، ج:2، ص:292، ط: دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."
(كتاب الحدود، باب التعزير، ج:4، ص:61، ط: سعید)
و فیہ ایضاً:
"لا يجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته."
(كتاب الغصب،مطلب فيما يجوز من التصرف بمال الغير بدون إذن صريح، ج:6، ص:200، ط: سعید)
شرح المجلہ میں ہے:
"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه أو وكالة منه أو ولاية عليه و إن فعل كان ضامناً."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:96، ج:1، ص:51، ط: رشیدیه)
و فیہ ایضاً:
"لایجوز لأحد أن یاخذ مال أحد بلا سبب شرعي و إن أخذ ولو علی ظن أنه ملكه وجب علیه ردہ عینا إن کا ن قائما وإلا فیضمن قیمته إن کان قیمیا."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، المادۃ:97، ج:1، ص:51 ، ط: رشدیه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101280
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن