بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی ملکیتی اشیاء میں شوہر کے تصرف کرنے کا حکم


سوال

جس طرح بیوی کو زکات دینے سے زکات ادا نہیں ہوتی؛ کیوں کہ وہ آپ ہی کی ملکیت رہتی ہے ۔ کیا اسی طرح شوہر اپنی بیوی کی ملکیت میں موجود مال، سونا، یا زمین کو اپنی  ضرورت کے وقت استعمال کرسکتا ہے؟اگر شوہر مانگے اور بیوی منع کردے تو کیا حکم ہے؟

جواب

ملحوظ رہے کہ بیوی کو  زکات دینا اس وجہ سے منع نہیں ہے کہ اسے زکات دینے کے باوجود  مال اپنی ملکیت میں رہتاہے، بلکہ اس ممانعت کی وجوہات درج ذیل ہیں:

(1) زکات کے ادا ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی دنیاوی نفع اور  غرض کے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مستحق کو دی جائے، جب کہ میاں بیوی کے مصالح و منافع اتنے مشترک ہوتے ہیں کہ ایک کا نفع دوسرے کا نفع اور ایک کا نقصان دوسرے کا نقصان سمجھا جاتاہے، ایک کا قابلِ فخر کارنامہ دوسرے کے لیے فخر کا باعث ہوتاہے اور ایک کی بدنامی دوسرے کی بدنامی ہوتی ہے، دونوں میں سے ہر ایک ہر قدم پر دوسرے کے کام آرہا ہوتاہے،  اب اگر  میاں بیوی میں سے کوئی ایک دوسرے کو اپنی زکات دے تو گویا اس میں اپنے مفاد و غرض کے لیے رقم صرف کرنا ہوا، جو کہ زکات کی روح کے خلاف ہے، یہی وجہ ہے کہ بیوی کے لیے بھی شوہر کو زکات دینا منع ہے۔

(2) شوہر کے ذمے بیوی کا نفقہ لازم ہوتاہے، اگر شوہر اپنی بیوی کو زکات دے گا تو اس کے نفقہ میں شامل ہونے کا شبہ ہے۔

مذکورہ وجوہات کی بنا پر شوہر کا اپنی بیوی کو  زکات دینا جائز نہیں ہے،  اس وجہ سے نہیں کہ بیوی شوہر کی ملکیت ہے  یا اس کی ملکیت میں موجود ہرچیز شوہر کی ملکیت ہے، شریعت میں میاں بیوی دونوں کی ملکیتوں کا جداگانہ لحاظ رکھا گیا ہے، لہٰذا اگر شوہر بیوی کو کوئی رقم وغیرہ مالک بناکر دے دے تو وہ بیوی کی ملکیت بن جاتی ہے، اسی طرح بیوی شوہر کو کوئی چیز مالک بناکر دے تو وہ بھی مالک بن جاتاہے، لیکن دونوں کی ذاتی ملکیت میں جو چیز موجود ہو، دوسرے کو اس میں مالکانہ تصرف کا حق نہیں ہوتا، لیکن اس سب کے باوجود میاں بیوی میں سے کسی کے لیے دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے، گو بیوی پر شوہر کا نفقہ نہیں ہے، لیکن اس ممانعت کی اصل وجہ منافع کا مشترک ہونا ہے۔

بصورتِ مسئولہ جو  اشیاء بیوی کی ملکیتی ہیں، وہ شوہر کی ملکیت شمار نہیں ہوں گی، لہذا  از رُوئے شرع شوہر کے  لیے اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی ملکیتی اشیاء میں  تصرف کرنا جائز نہیں ہوگا۔

 فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية) میں ہے: 

              "وَلَا يَدْفَعُ إلَى امْرَأَتِهِ لِلِاشْتِرَاكِ فِي الْمَنَافِعِ عَادَةً."

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:189، ط:مكتبه رشيديه)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144207200305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں