اگر بیوی دور جانے کی اجازت نہیں دیتی ہو اور شوہر اس کی اجازت کے بغیر دور جاکر علمِ دین حاصل کرے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ شوہر بیوی کی اجازت کے بغیر بیوی سے دور جا سکتا ہے، چاہے وہ علم دین حاصل کرنے کے لیے جائے، یا تجارت کے لیے جائے یا کسی اور مقصد کے لیے، البتہ شوہر پر بیوی کے کچھ حقوق ہیں جن کی ادائیگی ضروری ہے، لہذا شوہر جتنے عرصے بیوی سے دور رہے ، اس دوران بھی اس پر اپنی بیوی کانان نفقہ اور ضروری اخراجات ادا کرنا لازم ہے ،نیز اس کے اعمال و اخلاق پر نگاہ اور آگاہی رکھنا لازم ہے ۔
اور اگر چار ماہ سے زیادہ بیوی سے دور رہنا پڑے تو اس کے لیے بیوی کی اجازت ضروری ہے، اوراگر عورت پر خوفِ فتنہ ہوتو چار ماہ تک باہر رہنا بھی مناسب نہیں ہے ۔
وفي القرآن الكريم :
{يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا... الآية} [التحريم: 6]
وفي روح المعاني:
"وروي أن عمر قال حين نزلت : يا رسول اللّٰه نقي أنفسنا فكيف لنا بأهلينا؟ فقال عليه الصلاة والسلام : تنهوهن عن ما نهاكم اللّٰه وتتأمروهن بما أمركم اللّٰه به فيكون ذلك وقايةً بينهن وبين النار ."
(28 /156 ط:داراحیاء التراث العربی بیروت)
و في الدر المختار:
"لا في المجامعة كالمحبة بل يستحبّ و يسقط حقها مرّ و یجب ديانةً أحيانًا و لايبلغ مدة الإيلاء إلا برضاها."
وفي حاشية ابن عابدين:
"(قوله: و لايبلغ مدة الإيلاء) ... ويؤيد ذلك أن عمر -رضي الله تعالى عنه- لما سمع في الليل امرأة تقول:
فو الله لو لا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه
فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت: أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لايتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، و لو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها."
(الدر المختار مع ردالمحتار، کتاب النکاح، باب القسم، ۲۰۳/۳ ط : سعید)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144111200509
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن