بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی بھانجی سے زبردستی نکاح کرنا


سوال

ایک شخص نے اپنی اہلیہ کی حقیقی  بھانجی کو  دھوکہ سے ، اسی خالہ کے علاج  ومعالجہ ، خدمت کے بہانے   کورٹ میں لے جاکر نکاح  کرلیا (یعنی خالو نے اہلیہ کی بھانجی  سے نکاح کیا) ، جب کہ اس وقت لڑکی کی خالہ اس شخص کے نکاح میں موجود (زندہ وحیات) ہے،آیا یہ درست ہے یا نہیں ( اور اسی طرح لڑکی کے والدین کو  بھی معلوم نہیں تھا)

نیز اس شخص کی عمر  تقریباً 50 برس  سے زیادہ ہے، اور لڑکی اس شخص کی حقیقی بیٹی سے بھی عمر میں چھوٹی ہے (لڑکی کی عمر 15 برس ہے) ، یہ سارا معاملہ جب جج کے پاس گیا تو   لڑکی نے جج کے سامنے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اس شخص  نے زبردستی ناحق اور ناانصافی اور ظلماً مجھ سے نکاح کیا ہے، لڑکی کا یہ بھی کہنا ہے وہ اس نکاح سے راضی نہیں تھی۔

جواب

واضح رہے کہ    خالہ اور بھانجی کو ایک ساتھ عقد ِ نکاح میں جمع کرنا ناجائز اور حرام ہے، حدیث مبارکہ میں  آں حضرتﷺکا ارشاد گرامی ہے کہ: ”عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اورعورت کو اس کی خالہ کے ساتھ نکاح میں  جمع  کرنا جائز نہیں ہے“۔

لہذا سوال میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو مذکورہ شخص کا عمل ناجائز اور حرام تھا، بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے  جو اس کی بھانجی سے نکاح کیا ہے وہ  نکاح فاسد ہوا، لہذا اس پر توبہ واستغفار کے ساتھ فی الفور اپنی بیوی کی   بھانجی سے  علیحدگی کے الفاظ  کہہ کر  (مثلاً: میں نے تمہیں چھوڑدیا)  علیحدگی اختیار کرنا  لازم ہے،  اگر مذکورہ شخص اس میں  پس وپیش سے کام لے تو عدالت سے تفریق کروالی جائے۔

باقی سوال میں  یہ تفصیل نہیں ہے کہ  لڑکی سے زبردستی، ناحق اور ظلماً نکاح کی کیفیت کیا تھی، لیکن  چوں کہ  اس لڑکی کی خالہ پہلے سے مذکورہ شخص کے نکاح میں تھی اس لیے یہ نکاح بہر صورت  فاسد  ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يجمع بين المرأة وعمتها، ولا بين المرأة وخالتها."

(7 / 12، كتاب النكاح، باب لا تنكح المرأة علي عمتها، ط: دار طوق النجاة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أكرهت المرأة على النكاح ففعلت فإنه يجوز العقد."

   (1/ 294، كتاب النكاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها، ط: رشيديه)

وفیہ أیضاً :

"(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلا يجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها، ويجوز بين امرأة وبنت زوجها؛ فإن المرأة لوفرضت ذكراً حلت له تلك البنت، بخلاف العكس، وكذا يجوز بين امرأة وجاريتها؛ إذ عدم حل النكاح على ذلك الفرض ليس لقرابة أو رضاع، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. فإن تزوج الأختين في عقدة واحدة؛ يفرق بينهما وبينه، فإن كان قبل الدخول؛ فلا شيء لهما، وإن كان بعد الدخول يجب لكل واحدة منهما الأقل من مهر مثلها ومن المسمى، كذا في المضمرات. وإن تزوجهما في عقدتين فنكاح الأخيرة فاسد، ويجب عليه أن يفارقها، ولو علم القاضي بذلك يفرق بينهما، فإن فارقها قبل الدخول؛ لا يثبت شيء من الأحكام، وإن فارقها بعد الدخول فلها المهر ويجب الأقل من المسمى ومن مهر المثل، وعليها العدة ويثبت النسب ويعتزل عن امرأته حتى تنقضي عدة أختها، كذا في محيط السرخسي."

(1/ 277، كتاب النكاح، القسم الرابع المحرمات بالجمع، ط: رشيدية)

المبسوط للسرخسي میں ہے :

"{وأن تجمعوا بين الأختين} [النساء: 23] فكان يتوقف في ذلك، ولكنا نقول عند التعارض يترجح جانب الحرمة ويتأيد هذا بقوله -صلى الله عليه وسلم- «لا يحل لرجل يؤمن بالله واليوم الآخر أن يجمع ماءه في رحم أختين»، ولأن المراد من قوله {وأن تجمعوا} [النساء: 23] حرمة الجمع فراشا كما أن قوله تعالى {حرمت عليكم أمهاتكم} [النساء: 23] يقتضي حرمة الاستفراش بأي سبب كان والجمع فراشا يحصل بالوطء بملك اليمين فلهذا يحرم عليه الجمع بينهما، فإن تزوجهما في عقدة واحدة بطل نكاحهما؛ لأنه لا وجه لتصحيح نكاح إحداهما بغير عينها فإن النكاح عقد تمليك فلا يثبت في المجهولة ابتداء، ولا بعينها إذ ليست إحداهما بأولى من الأخرى، ولا يمكن تصحيح نكاحهما؛ لأن الجمع محرم بالنص فتعين البطلان، وإن نكح إحداهما قبل الأخرى فنكاح الأولى جائز؛ لأن بهذا العقد لا يصير جامعا ونكاح الثانية فاسد؛ لأن بهذا العقد يصير جامعا بين الأختين فتعين فيه جهة البطلان فيفرق بينهما، فإن لم يكن دخل بها فلا شيء لها عليه، وإن كان قد دخل بها فعليها العدة ولها الأقل من المسمى ومن مهر المثل؛ لأن الدخول حصل بشبهة صورة النكاح فيسقط به الحد ويجب المهر والعدة كما إذا زفت إليه غير امرأته."

(4 /201، کتاب  النكاح، ط: دارالمعرفة بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101171

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں