بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کی باری فوت ہونے کی صورت میں اس باری کی قضا لازم نہیں


سوال

ایک شخص کی دو بیویاں ہیں اور وہ دونوں اس کے ساتھ خان پور شہر میں رہتی ہیں، اس کے دو بیٹے لاہور میں رہتے ہیں، اس نے دوسری بیوی کو لاہور اپنے بیٹوں کے پاس از خود بھیجا ہے، جب کہ بیوی کی طرف سے رضایا عدمِ رضا کا کوئی اظہار نہیں ہے، اب آیا دوسری بیوی کے واپس شوہر کے پاس گھر لوٹنے پر اس کی عدمِ موجودگی کی باریوں کی قضا شوہر (مذکورہ شخص) پر لازم ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص پر اس کی دوسری بیوی کے واپس گھر لوٹنے پر اس کی عدمِ موجودگی کی باریوں کی قضا لازم نہیں ہے، البتہ اگر عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر لاہور بھیجا ہے تو مذکورہ شخص ایسا کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوا ہے،سائل کے ذمہ لازم ہے کہ دونوں بیویوں کے درمیان برابری کرے اور ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے ورنہ آخرت میں سخت پکڑ ہوگی اور جو گناہ کرچکا، اس کی تلافی کی یہی صورت ہے کہ صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے اور اس دوسری بیوی کو راضی کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو أقام عند إحدى امرأتيه شهرا قبل الخصومة أو بعدها ثم خاصمته الأخرى في ذلك، أمره القاضي بالتسوية بينهما في المستقبل وما مضى كان هدرا ليس لها أن تطلب أن يقيم عندها مثل ذلك."

(ج:1، ص:341، کتاب النکاح، الباب الحادی عشر فی القسم، ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو) (أقام عند واحدة شهرا في غير سفر ثم خاصمته الأخرى) في ذلك (يؤمر بالعدل بينهما في المستقبل وهدر ما مضى وإن أثم به) لأن القسمة تكون بعد الطلب.

(قوله: لأن القسمة تكون بعد الطلب) علة لقوله: هدر ما مضى، وقدمنا عن البدائع أن سبب وجوب القسم عقد النكاح ولهذا يأثم بتركه قبل الطلب، وهذا يؤيد بحث الفتح. وقد يجاب بأن المعنى أن الإجبار على القسمة من القاضي يكون بعد الطلب وإلا لزم أنها لو طالبته بها ثم جار يلزمه القضاء. وهو مخالف لما قدمناه عن الخانية من قوله: قبل الخصومة أو بعدها، وكذا تعليل المسألة في البزازية وغيرها بأن القسم لا يصير دينا في الذمة، فإنه يشمل ما بعد الطلب."

(ج:3، ص:205، کتاب النکاح، باب القسم بین الزوجات، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100974

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں