بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے مطالبہ پر شوہر کا مال کے بدلے طلاق دینا


سوال

شوہر کی کوئی غلطی نہیں ہے، شوہر طلاق دینابھی نہیں چاہتا،  پھر بھی بیوی خلع لینا چاہتی ہے تو کیا شوہر لاکھ روپے لے کر طلاق دے سکتا ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  اگر  شوہر کی طرف سے بیوی کے حق میں کوئی  کوتاہی نہ ہو اور ناچاقی و اختلاف کا سبب بیوی ہو تو ایسی صورت میں شوہر کے لیے بیوی کے مطالبہ پر مال کے بدلے طلاق یا خلع دینا جائز ہے، البتہ افضل اور بہتر یہ ہے کہ  اس طلاق کے بدلے میں مہر  سے زیادہ رقم وصول نہ کرے۔اور اگر میاں بیوی کے درمیان اختلافات و ناچاقی کا سبب شوہر ہو تو ایسی صورت میں دیانتًا خلع  کے عوض میں شوہر کے لیے کچھ لینا حلال نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 445):

"(وَكُرِهَ) تَحْرِيمًا (أَخْذُ شَيْءٍ) وَيُلْحَقُ بِهِ الْإِبْرَاءُ عَمَّا لَهَا عَلَيْهِ (إنْ نَشَزَ وَإِنْ نَشَزَتْ لَا) وَلَوْ مِنْهُ نُشُوزٌ أَيْضًا وَلَوْ بِأَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَاهَا عَلَى الْأَوْجَهِ فَتْحٌ، وَصَحَّحَ الشُّمُنِّيُّ كَرَاهَةَ الزِّيَادَةِ، وَتَعْبِيرُ الْمُلْتَقَى لَا بَأْسَ بِهِ يُفِيدُ أَنَّهَا تَنْزِيهِيَّةٌ وَبِهِ يَحْصُلُ التَّوْفِيقُ.

(قَوْلُهُ: وَكُرِهَ تَحْرِيمًا أَخْذُ الشَّيْءِ) أَيْ قَلِيلًا كَانَ، أَوْ كَثِيرًا.

وَالْحَقُّ أَنَّ الْأَخْذَ إذَا كَانَ النُّشُوزُ مِنْهُ حَرَامٌ قَطْعًا - {فَلا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا} [النساء: 20]- إلَّا أَنَّهُ إنْ أَخَذَ مَلَكَهُ بِسَبَبٍ خَبِيثٍ، وَتَمَامُهُ فِي الْفَتْحِ، لَكِنْ نَقَلَ فِي الْبَحْرِ عَنْ الدُّرِّ الْمَنْثُورِ لِلسُّيُوطِيِّ: أَخْرَجَ ابْنُ أَبِي جَرِيرٍ عَنْ ابْنِ زَيْدٍ فِي الْآيَةِ قَالَ: ثُمَّ رَخَّصَ بَعْدُ، فَقَالَ -: {فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229]- قَالَ فَنَسَخَتْ هَذِهِ تِلْكَ اهـ وَهُوَ يَقْتَضِي حِلَّ الْأَخْذِ مُطْلَقًا إذَا رَضِيَتْ اهـ أَيْ سَوَاءٌ كَانَ النُّشُوزُ مِنْهُ أَوْ مِنْهَا، أَوْ مِنْهُمَا. لَكِنْ فِيهِ أَنَّهُ ذَكَرَ فِي الْبَحْرِ أَوَّلًا عَنْ الْفَتْحِ أَنَّ الْآيَةَ الْأُولَى فِيمَا إذَا كَانَ النُّشُوزُ مِنْهُ فَقَطْ، وَالثَّانِيَةَ فِيمَا إذَا لَمْ يَكُنْ مِنْهُ فَلَا تَعَارُضَ بَيْنَهُمَا، وَأَنَّهُمَا لَوْ تَعَارَضَتَا فَحُرْمَةُ الْأَخْذِ بِلَا حَقٍّ ثَابِتَةٌ بِالْإِجْمَاعِ، وَبِقَوْلِهِ تَعَالَى -: {وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا} [البقرة: 231]- وَإِمْسَاكُهَا لَا لِرَغْبَةٍ بَلْ إضْرَارًا لِأَخْذِ مَالِهَا فِي مُقَابَلَةِ خَلَاصِهَا مِنْهُ مُخَالِفٌ لِلدَّلِيلِ الْقَطْعِيِّ فَافْهَمْ (قَوْلُهُ: وَيُلْحَقُ بِهِ) أَيْ بِالْأَخْذِ (قَوْلُهُ: إنْ نَشَزَ) فِي الْمِصْبَاحِ نَشَزَتْ الْمَرْأَةُ مِنْ زَوْجِهَا نُشُوزًا مِنْ بَابِ قَعَدَ وَضَرَبَ عَصَتْهُ. وَنَشَزَ الرَّجُلُ مِنْ امْرَأَتِهِ نُشُوزًا بِالْوَجْهَيْنِ: تَرَكَهَا وَجَفَاهَا، وَأَصْلُهُ الِارْتِفَاعُ اهـ مُلَخَّصًا (قَوْلُهُ: وَلَوْ مِنْهُ نُشُوزٌ أَيْضًا) لِأَنَّ قَوْله تَعَالَى - {فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ} [البقرة: 229]- يَدُلُّ عَلَى الْإِبَاحَةِ إذَا كَانَ النُّشُوزُ مِنْ الْجَانِبَيْنِ بِعِبَارَةِ النَّصِّ، وَإذَا كَانَ مِنْ جَانِبِهَا فَقَطْ بِدَلَالَتِهِ بِالْأَوْلَى (قَوْلُهُ: وَبِهِ يَحْصُلُ التَّوْفِيقُ) أَيْ بَيْنَ مَا رَجَّحَهُ فِي الْفَتْحِ مِنْ نَفْيِ كَرَاهَةِ أَخْذِ الْأَكْثَرِ  وَهُوَ رِوَايَةُ الْجَامِعِ الصَّغِيرِ، وَبَيْنَ مَا رَجَّحَهُ الشُّمُنِّيُّ مِنْ إثْبَاتِهَا وَهُوَ رِوَايَةُ الْأَصْلِ، فَيُحْمَلُ الْأَوَّلُ عَلَى نَفْيِ التَّحْرِيمِيَّةِ وَالثَّانِي عَلَى إثْبَاتِ التَّنْزِيهِيَّةِ، وَهَذَا التَّوْفِيقُ مُصَرَّحٌ بِهِ فِي الْفَتْحِ، فَإِنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ الْمَسْأَلَةَ مُخْتَلِفَةٌ بَيْنَ الصَّحَابَةِ وَذَكَرَ النُّصُوصَ مِنْ الْجَانِبَيْنِ ثُمَّ حَقَّقَ ثُمَّ قَالَ: وَعَلَى هَذَا يَظْهَرُ كَوْنُ رِوَايَةِ الْجَامِعِ أَوْجَهَ، نَعَمْ يَكُونُ أَخْذُ الزِّيَادَةِ خِلَافَ الْأَوْلَى، وَالْمَنْعُ مَحْمُولٌ عَلَى الْأَوْلَى. اهـ. وَمَشَى عَلَيْهِ فِي الْبَحْرِ أَيْضًا."

نیز  واضح  رہے کہ عورت کا شدید  مجبوری کے بغیر شوہر سے طلاق  یا خلع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، حدیثِ مبارک میں آتا ہے کہ جو عورت  بغیر کسی مجبوری کے  اپنے شوہر سے طلاق کا سوال کرے اس پر جنت کی خوش بو  حرام  ہے۔

         سنن  أبي داود   میں  ہے:

"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما امرأة سألت زوجها طلاقًا في غير ما بأس، فحرام عليها رائحة الجنة»."

 (1/310، باب الخلع، ط؛ حقانیہ)

اس لیے عورت کو چاہیے کہ وہ حتی الامکان گھر بسانے کی کوشش کرے، بلاوجہ شوہر سے طلاق یا خلع کا مطالبہ نہ کرے، اگر کبھی کوئی ناخوش گوار بات پیش آجائے تو اس پر صبر کرے، شوہر کے حقوق کی رعایت کرے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ بیوی کے حقوق کی رعایت کرے، اگر کبھی ایسا مسئلہ پیش آجائے جو باہم حل نہ ہورہا ہوتو خاندان کے بڑے اور معزز لوگوں سے بات چیت کرکے مسئلہ کا حل نکالا جائے، یعنی جس قدر ہوسکے رشتہ کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے، لیکن اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور دونوں میاں بیوی کو ڈر ہو کہ وہ اللہ کے حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر ایسی صورت میں وہ علیحدگی اختیار کرسکتے ہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210200614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں