بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا دودھ کان میں دوا کے طور پر ڈالنا


سوال

کان میں درد کی وجہ سے بیوی کا دودھ دوا کے طور پر کان میں ڈالنا کیسا ہے؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں شوہر کے لیے اپنی بیوی کا دودھ  دوا کے طور پر کان میں ڈالنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ بیوی کا دودھ اس کے بدن کا جزء ہے، اور  انسان کے تمام اعضاء مکرم ہیں، لہٰذا انسانی اعضاء و اجزاء کی عظمت اور اکرام  کی وجہ سے شرعاً بلاضرورت ان کا استعمال اور ان سے انتفاع ناجائز اور  حرام ہے،لہذا جب کہ کان میں درد کا علاج دیگر دوائی سے ممکن ہے ،اچھے ڈاکٹر سے رجوع کر کے اپنا علاج کرایا جائے تاہم اگر کسی نے اپنی بیوی کا دودھ اپنے کان میں ڈالا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت  نہیں ہوتی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتكره ألبان الأتان للمريض وغيره، وكذلك لحومها، وكذلك التداوي بكل حرام، كذا في فتاوى قاضي خان".  

(كتاب الكراهية وهو مشتمل على ثلاثين بابا،الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات،ج:5،ص:355 ط،: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولم يبح الإرضاع بعد موته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة ‌حرام ‌على ‌الصحيح شرح الوهبانية. وفي البحر: لا يجوز التداوي بالمحرم في ظاهر المذهب، أصله بول المأكول كما مر."

(کتاب النکاح،باب الرضاع،ج:3،ص: 211،ط:سعید)

درر الحكام شرح غرر الاحكام میں ہے:

"وقال في شرح المنظومة: الإرضاع بعد مدته حرام؛ لأنه جزء الآدمي والانتفاع به بغير ضرورة حرام على الصحيح."

(كتاب الرضاع، ما يحرم بالرضاع (1/ 356)،ط.  دار إحياء الكتب العربية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101311

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں