بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے بارے میں دو دفعہ ’’میں اس کو چھوڑ رہا ہوں‘‘ کہنے سے طلاق اور عدت کا حکم


سوال

میری بیٹی کی شادی 31 جنوری 2020 کو ہوئی تھی، اس کے ایک مہینے بعد ہی اس کے شوہر نے اسے گھر بھیج دیا کہ یہ تو بیمار ہے، ہر دو مہینے ایک مہینہ بعد میکے بھیج دیا کرتے تھے کہ اس کو آکر لے جائیں یہ بیمار ہے، اب 7 اگست کو پھر گھر میں لڑائی جھگڑا کرکے بھیج دیا، اور کہا کہ اس کے گردے پھیپھڑے خراب ہوگئے ہیں، اس کو لے جاؤ۔ پھر کہنے لگاکہ میں اس کو پچاس دفعہ کہہ چکا ہوں چلی جا، یہ جاتی نہیں ہے۔ جب ہم لینے گئے تو کہنے لگا: ’’میں اس کو چھوڑ دوں گا، میں نے اسے بہنوں کی طرح رکھا ہوا ہے‘‘۔ اس نے اسے شوہر کا حق ہی نہیں دیا۔

پھر میں اپنے بھائی اور بہن بہنوئی کو لے کر گئی اور ان لوگوں نے اس سے آرام سے بات کی تو وہ کہنے لگا: ’’میں اس کو چھوڑ رہاہوں‘‘۔ اس نے یہ جملہ دو مرتبہ بولا۔ ( یہ جملہ طلاق کے تناظر میں کہا گیا) پھر میرے بھائی نے کہا: تم صاف لفظوں میں بولو! تو بولا: مجھے طلاق دینی نہیں آتی، میری پہلی شادی ہے۔ اس پر بھائی نے کہا: سب کی ہی پہلی شادی ہوتی ہے، مگر اس طرح لڑکی کو کوئی بار بار گھر نہیں بھیجتا، نہ بہن بناتاہے۔ تو کہنے لگا: میں صبح طلاق کے کاغذات پہنچادوں گا، لیکن مہر نہیں دوں گا۔لیکن ابھی تک نہ کاغذات بھیجے اور نہ کوئی بات کی۔ ویسے وہ لوگ کہتے ہیں کہ سامان اٹھاکر لے جاؤ۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ لڑکا نوکری بھی نہیں کرتا، اور بیوی کو خرچہ بھی نہیں دیتا، اور مار پیٹ بھی کرتاہے، چار مرتبہ لات بھی ماری ہے، اور وہ لوگ لالچی بہت ہیں، کہتاہے کہ کاروبار کروں گا اس کے لیے پانچ لاکھ روپے دے دو۔ ایک دفعہ بچی سے 20،000 روپے بھی لے چکا ہے۔ مجھے اس تفصیل کی روشنی میں بتائیے کہ:

1- مذاکرۂ طلاق کے دوران دو مرتبہ "میں اس کو چھوڑ رہاہوں" کہنے سے طلاق ہوئی یا نہیں؟ خصوصاً جب اس سے کہا گیا کہ صاف لفظوں میں بولو تو اس نے کہا مجھے طلاق دینا نہیں آتی، میری پہلی شادی ہے۔ 2-اگر طلاق واقع ہوگئی ہے تو کون سی؟ اور کتنی ؟

3- طلاق کی صورت میں عدت کے احکام اور پابندیاں کیا ہوں گی؟

جواب

۱۔۲: صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر واقعہ کے مطابق اور درست ہے تو  شوہر  کے اپنی بیوی کے بارے میں  یہ  جملہ ’’میں اس کو چھوڑ رہاہوں‘‘ دو مرتبہ کہنے سے اس کی بیوی پر دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ہیں، عرف کی وجہ سے ’’چھوڑنا‘‘ لفظ، طلاق کے لیے صریح ہے،اس سے نیت کے بغیر بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ شوہر کو بیوی کی عدت  کے دوران رجوع کرنے کا حق حاصل ہے، اگر عدت کے اندر شوہر نے رجوع کرلیا تو  نکاح برقرار رہے گا،  لیکن اگر شوہر نے عدت میں رجوع نہیں کیا  تو عدت گزرتے ہی نکاح ختم ہوجائے گا، اور بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی،  اور اگر دونوں باہمی رضامندی سے دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو تجدیدِ نکاح کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں، اور دونوں صورتوں میں  آئندہ کے لیے شوہر کے پاس ایک طلاقوں کا حق ہوگا۔

۳۔۔  عدت اس وقت سے شروع ہوگی جب سے شوہر نے طلاق کے الفاظ کہے ہیں اور عدت کا عمومی حکم یہ ہے جس عورت کو شوہر نے طلاق دی ہو اس کی عدت مکمل تین ماہواریاں ہیں اگر حمل نہ ہو، اور اگر وہ حاملہ ہو تو اس کی عدت  وضع حمل ہے،  عدت کے دوران عورت کے لیے کسی اور جگہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  اور کسی مرد کو ایسی عورت کو نکاح کا صراحتاً  پیغام دینا بھی جائز نہیں ہے، اور  عدت کے دوران عورت کے لیے شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1 / 384):

في المحيط: لو قال بالعربية: أطلق لايكون طلاقًا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقًا.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 299):

فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت، لكن لما غلب استعمال حلال الله في البائن عند العرب والفرس وقع به البائن ولولا ذلك لوقع به الرجعي.

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200361

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں