بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 جمادى الاخرى 1446ھ 08 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کب شوہرسے الگ گھرکا مطالبہ کرسکتی ہے؟


سوال

میں 4 اپریل کی صبح سسرال کےگھرسےمیکےآئی ہوں،کیوں کہ میرےشوہرنےرات کوبرتن رکھنےکی آوازپہ میراہاتھ موڑاتھا اور رات ڈھائی بجےمیرےوالدکوفون کرکےان کے ساتھ بدتمیزی کی،میری شادی کو 35 سال ہوگئےہیں، میری کوئی اولادنہیں ہے،ہمیں ڈاکٹرنےٹیسٹ لکھ کردیے، ہم دونوں نے وہ ٹیسٹ کروالیے تھے، میرے شوہر تو کروانا نہیں چاہتے تھے،پھرہمارےگھروالوں نےاس کے ساتھ  بیٹھک  کی،تو اس کے دو  سال بعداس نےوہ ٹیسٹ کروالیے،لیکن آج تک مجھےاس کاطعنہ دیتےہیں تومیراان کوٹیسٹ کروانےکو کہنا  غلط ہے؟

2:میرے شوہر میرے والدین  کے ساتھ  بدتمیزی  کے ساتھ  پیش آتےہیں،کوئی عزت نہیں کرتے،کوئی  دعوت ہو  میرےخاندان کی تو  مجھے وہاں جانے نہیں دیتے،جب کہ میں ان کے تمام خاندان والوں کی عزت کرتی ہوں۔

3: میں  اپنے  شوہر  کی ایک آواز پہ سنتی ہوں، اس کے اور اس کے والدین کی اجازت کے بغیر گھر سے نہیں نکلتی، اس کے پورے خاندان کی قدر کرتی ہوں، اس کےباوجودوہ مجھےنافرمان کہتے ہیں، تو شریعت  میں  نافرمان عورت کی کیانشانی ہے؟

4:ہماری کبھی آپس میں لڑائی نہیں ہوتی،ہمیشہ لڑائی کسی اور کی وجہ سےہوتی ہے،میرےدیوربھی مجھ سےبدتمیزی کرتےہیں،گھرمیں کل پانچ افرادہیں،اس کےباوجودبھی میری جگہ نہیں ہے،میں اس وجہ سےبہت اذیت میں ہوں،اب میں اپنےشوہرسےگھرکی چھت پہ اپناسیٹ اپ بناناچاہتی ہوں،توکیا اسلام اس کی اجازت دیتاہے؟

5:میری  ٹیسٹ  رپوٹ میرےسسرچیک کرتے،جس کی وجہ سےمجھےشرم آتی ہے،میں منع کرتی ہوں ،توشوہرسمیت سارےگھروالےکہتےہیں اس میں کوئی حرج نہیں،توشرعًا ان کایہ عمل درست ہے؟

6:کیاشوہربیوی کوبلاوجہ میکےجانےسےروک سکتاہے؟جب کہ اس کاکہناہےکہ یہ میراحق ہےمیں روک سکتاہوں اورحال یہ ہےکہ میں اپنےوالدین کی اکلوتی بیٹی ہوں۔

براہِ کرم مجھےان سوالوں کاجواب عنایت فرمائیں ،میں بہت اذیت میں ہوں۔

جواب

واضح رہےکہ شریعت میں جس طرح عورت کےذمے  مردکےحقوق ہیں،اسی طرح مردکےذمہ عورت کےحقوق ہیں،اللہ تعالی کاارشادہے:

"وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ" [البقرة : 228]

ترجمہ: اورعورتوں کےلیےبھی حقوق ہیں جو کہ مثل ان ہی حقوق کےہیں جوعورتوں پرہیں اورمردوں کوان کےمقابلےمیں درنہ بڑھاہواہےاوراللہ تعالی زبردست حکیم ہیں۔ (بیان القرآن)

لہذاصورتِ  مسئولہ  میں  اگربیوی نےاپنے شوہر کے سامنے ٹیسٹ  کروانے کا ذکر کیا ہو شوہر کے ادب کوملحوظ رکھ کر،تواس میں شرعًاکوئی قباحت نہیں ہے،شوہرکواس پرناراض نہیں ہوناچاہیے۔

2:سائلہ کے شوہرکے ذمے اخلاقًافرض ہے کہ جس طرح وہ بیوی سے اپنے والدین کی قدر دانی چاہتاہے اسی طرح بیوی کے والدین کی بھی قدرکرے، ورنہ  پھران دونوں کے درمیان الفت کاتوازن برقرارنہیں رہےگا،جس سےگھربربادہونےکا خطرہ ہے،لہذا اس کواس رویہ سےاجتناب کرناچاہیے۔

3:اسلام میں عورت کو شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، اگر شوہر بیوی کو کسی بات سے منع کردے تو بیوی پر اس کی بات کا ماننا لازم ہے، حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، ہاں خلافِ شرع امور میں شوہر کی اطاعت ضروری نہیں ہے؛ بلکہ شوہر اگر بیوی کو کسی معصیت کا حکم کرے، تو بیوی کے لیے اس کی بات ماننا جائز نہیں ہے،شریعت میں نافرمان اس عورت کوکہاجاتاہے،جواپنےشوہرسےنفرت کرے،اس کی اجازت کےبغیر گھرسےنکلے،جائزامورمیں بھی تابعداری نہ کرے۔

4:سائلہ کوچاہیےکہ اپنےشوہرکےوالدین کی حتی الامکان قدرکرے،اگرکبھی وہ بڑھاپےکی وجہ تلخ باتیں سنائیں،توبرداشت کرے،اللہ سےثواب کی امیدلگاکران کی خدمت کو اپنے اوپرلازم سمجھےگوکہ شرعالازم نہیں ،لیکن اگرسائلہ ان کےساتھ کسی بھی صورت میں رہناپسندنہیں کرتی توپھرشرعًابیوی کاعلیحدہ رہائش کامطالبہ درست ہے، تاہم بیوی کو مستقل اور الگ رہائش دینے کے معاملہ میں  شریعت نے شوہر  کی استطاعت اورحیثیت کوملحوظ رکھاہے ، اگرشوہرزیادہ  مال دار ہے اور اس کی استطاعت ہے کہ وہ مستقل طورپر علیحدہ گھر کا انتظام کرے  اور بیوی بھی شریف اور اعلی خاندان سے تعلق رکھتی ہے تو بیوی کو الگ گھر کے مطالبے کا حق ہوگا۔

اور اگرشوہراتنی استطاعت نہیں رکھتا کہ مکمل طورپر جدا گھر  دے  تو گھر میں سے ایک ایسا جدا مستقل کمرہ جس  کا بیت الخلا، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اورعورت کی ضروریات کو کافی ہوجائے،جس میں وہ اپنامال و اسباب تالا لگا کر رکھ  سکے، کسی اور کی اس میں دخل اندازی نہ ہو،  ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔

5:سائلہ کےسسرکاٹیسٹ وغیرہ دیکھنےکامطالبہ اگرگھروالوں کی مصلحت کےپیشِ نظرہو،تاکہ علاج وغیرہ سے باخبر رہے،تواس طرح کےٹیسٹ دیکھنےمیں کوئی حرج نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ وہ سائلہ کی غیر موجودگی میں دیکھے، گھروالوں کو سائلہ کےدلی جذبات کا خیال رکھناچاہیے،اس لیےکہ کسی کی دل آزاری خواہ کسی وجہ سےبھی ہوحرام ہے۔

6:شوہر کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بیوی کو اس کے والدین سے ملنے سے روکے اور قطع تعلق کرائے، شوہر کو چاہیے کہ اگر اس کا سسرال اسی کے شہر میں ہے تو ہفتے میں کم از کم ایک مرتبہ بیوی کو والدین سے ملاقات کی اجازت دے، اور باقی محرم رشتہ داروں (بہن، بھائیوں، چچا، پھوپھی، ماموں اور خالاؤں) سے مناسب وقفے کے بعد ملاقات کرنے دے۔

حدیث شریف میں ہے :

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً، وخياركم خياركم لنسائهم . رواه الترمذي".

(مشکاۃ المصابیح، كتاب النكاح،باب عشرۃ النساء، ج:2، ص:973، رقم:3264، ط:المكتب الإسلامي)

"ترجمہ: رسول کریم ﷺ نے فرمایا: مؤمنین میں سے  کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہت زیادہ خوش اخلاق ہو،  اور تم  میں بہتر وہ شخص ہے جو  اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہے۔"

(مظاہر حق، ج:3،ص:370، ط:  دارالاشاعت)

التعریفات الفقہیۃ میں ہے:

"النَّاشزَة: هي في اللغة: المرأة العاصيةُ على الزوج المُبغضةُ له، وشرعاً: هي خارجة من بيته بغير حق."

(حرف النون، ص:224، ط:دار الكتب العليمة)

کشاف الصطلاحات الفنون میں ہے:

"هي في اصطلاح الفقهاء ‌المرأة ‌التي ‌خرجت ‌من ‌منزل ‌الزوج ‌ومنعت ‌نفسها ‌منه ‌بغير ‌حقّ كذا في المسكيني شرح الكنز في باب النفقة."

(حرف النون، ج:2، ص:1680، ط:الناشرون، بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"امرأة أبت أن تسكن مع ضرتها، أو مع أحمائها كأمه وغيرها، فإن كان في الدار بيوت فرغ لها بيتا، و جعل لبيتها غلقا على حدة ليس لها أن تطلب من الزوج بيتا آخر، فإن لم يكن فيها إلا بيت واحد فلها ذلك...لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرة، وعليه الفتوى كذا في غاية السروجي وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر، وقال مشايخ بلخ في كل سنة وعليه الفتوى، وكذا لو أرادت المرأة أن تخرج لزيارة المحارم كالخالة والعمة والأخت فهو على هذه الأقاويل كذا في فتاوى قاضي خان وليس للزوج أن يمنع والديها وولدها من غيره وأهلها من النظر إليها وكلامها في أي وقت اختاروا هكذا في الهداية."

(كتاب الطلاق، الفصل الثاني في السكنى، ج:1، ص:556، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و لايمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ولو أبوها...(ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى خانية، ويمنعها من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة، وإن أذن كانا عاصيين كما مر في باب المهر.

(قوله: على ما اختاره في الاختيار) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار: هكذا قيل لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين وقيل يمنع؛ ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغيرهم من الأقارب في كل سنة هو المختار...(قوله والوليمة) ظاهره ولو كانت عند المحارم،؛ لأنها تشتمل على جمع فلا تخلو من الفساد عادة رحمتي."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:602، ط:دار الفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144512100089

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں