بیوی شوہر سے ایسے الگ گھر کا مطالبہ کرے جو اس کے شہر سے دور دوسرےاجنبی شہر ہو، جہاں شوہر والدین سے دوری کی وجہ سے ملاقات اور خود ان کی خدمت نہ کر سکے، جب کہ والدین بوڑھے اور اکیلے ہیں ، اس کے علاوہ اس شہر میں کوئی عزیز اقارب نہ ہو کہ ضرورت کے وقت کام آسکیں ، دوسرا ان کے بچے بھی دادا دادی سے دور ہو جائیں تو کیا بیوی کا ایسا مطالبہ جائز ہے؟ جب کہ شوہر اسے اپنی گھر کی دوسری منزل جس کا داخل ہونے کا دروازہ، کچن ، بیت الخلاء سب مکمل طور پہ الگ ہے اس میں رہنے کاانتظام کرے. جس میں بیوی سے ساس سسر کی خدمت کا مطالبہ بھی نہ ہو، اور شوہر اپنے والدین کی خود خدمت بھی آسانی سے کرسکے اور بچے بھی اپنے ددھیال سے محروم نہ ہوں تو بیوی کو اس پہ اعتراض کرنا چاہیے؟
صورتِ مسئولہ میں جس گھر میں شوہر اپنے والدین کے ساتھ رہ رہا ہے، اگر اسی گھر کی دوسری منزل پر بیوی کو رہائش دے دے، جس کا دروازہ، بیت الخلاء، باورچی خانہ وغیرہ الگ ہو اور اس میں میاں بیوی کے علاوہ کسی تیسرے شخص کا عمل دخل نہ ہو تو اس سے شوہر کی ذمہ داری پوری ہوجائے گی، اس سے زیادہ بیوی کو مطالبہ کا حق نہیں ہے؛ لہذا بیوی کا شوہر سے والدین سے دور الگ شہر میں رہائش دینے کا مطالبہ درست نہیں ہے۔
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله وأهلها إلا أن تختار ذلك".
(الباب السابع عشر في النفقات 1/556، ط: ماجدية)
فتاوى شامي میں ہے:
"إن أمكنه أن يجعل لها بيتًا على حدة في داره ليس لها غير ذلك".
(مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144204200534
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن