میرے شوہر نے فون پر پر مجھے کہا کہ میں تم سے طلاق چاہتا ہوں، تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں نے تمہیں طلاق دی، تم مجھ پر حرام ہو، میں نے ایسے سنا ہے، لیکن میرےشوہر کہہ رہے ہیں کہ میں نے ایسا نہیں کہا ہے ، لیکن تم نے ایسا سنا ہے، وہ اس بات پر بضد ہیں کہ میں نے ایسا نہیں کہا ہے، وہ قسم کھانے کے لیے بھی تیار ہیں ، اس کے لیے کیا حکم ہے ؟کیاطلاق بائن ہو گئی؟ کیا ہمیں اب دوبارہ نکاح کرنا ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں طلاق کے متعلق چوں کہ میاں بیوی کے بیان میں اختلاف ہے، بیوی کا بیان یہ ہے کہ اس کے شوہر نے اس کو فون پر یہ الفاظ کہے ہیں : ”میں نے تمیں طلاق دی، تم مجھ پر حرام ہو“، جس سے دو طلاق بائنہ ہو کر نکاح ٹوٹ جاتا ہے، جب کہ شوہر اس قسم کے الفاظ بولنے سے سرے سے انکاری ہے، اس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ کسی معتبر عالمِ دین یا مستند مفتی کے پا س جا کر ان کو اپنا فیصل/ ثالث مقرر کریں، پھر بیوی اس کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کرے اور ثالث اس سے اس کے دعوی پر دو گواہ طلب کرے، اگر وہ گواہ پیش کردے یا شوہر اس کے دعویٰ کو تسلیم کرلے تو بیوی پر دو طلاقِ بائن واقع ہونے کا فیصلہ دے دے، اور اگر بیوی شرعی گواہ پیش کرنے میں ناکام ہوجائے تو بیو ی کے مطالبہ پر شوہر (مدعی علیہ) پر قسم آئے گی، اگر شوہر اس طرح قسم اٹھالیتا ہے کہ "میں قسم اٹھاکر کہتا ہوں کہ میں نے فلانۃ بنتِ فلاں کو طلاق نہیں دی" تو ثالث طلاق واقع نہ ہونے کا فیصلہ کرے گا۔
البتہ بیوی کے دعویٰ کے مطابق بھی چوں کہ دو طلاقِ بائن واقع ہورہی ہیں، اس لیے بہر صورت تجدید نکاح کرلینا چاہیے۔
اعلاء السنن میں ہے:
"البینة علی المدعي و الیمین علی من أنکر ... هذا الحدیث قاعدۃ کبیرۃ من قواعد الشرع."
( کتاب الدعویٰ، 15/ 350، ط: إدارۃ القرآن)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد و لايصح فيما لايملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."
(كتاب أدب القاضي،الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، 3 /397، ط: رشیدیة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102131
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن