بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے انتقال کے بعد شوہر کے ذمہ واجب الاداء مہر کا حکم


سوال

1)⅜ مہر معجل اور ⅝ مہر مؤجل رہ گیا تھا اب بیوی کا انتقال ہوگیا تو اب بقایا جات کس کو دیا جائے؟

2)جب کہ ایک 6 مہینے کا بیٹا بھی ہے وہ اب سسرال کے ہاں ہے سسرال والے والد کے حوالے نہیں کر رہے جب کہ دادا ، دادی بھی ہے اور ہمیشہ کے لیے بچہ اپنے والد کو دینے سے منع کر رہے ہیں ۔

جواب

1)اگر شوہر نے بیوی کا حق مہر  (معجل یا مؤجل)  ادا نہ کیا ہو یاکچھ ادا کیا ہو اور کچھ باقی ہواور اس  کی بیوی کا انتقال ہوجائے تو  اس عورت کا  حق ِ مہر  شوہر  کے  ذمہ  واجب الادا  قرضہ ہونے کی وجہ سے اس عورت کے ترکہ میں شامل ہوگا، لہٰذا شوہر مرحومہ بیوی کے دیگر ترکہ کے ساتھ مہر کی رقم کو بھی شامل کردے اور مہر کی رقم میں سے میراث کے ضابطہ شرعی کے مطابق اپنا حصہ کاٹنے کے بعد باقی رقم مرحومہ بیوی کے دیگر ورثاء کو ادا کردے۔

2)ماں کے انتقال کے بعد سات سال کی عمر تک بچہ کی پرورش کا حق شرعا بچہ  کی نانی کو حاصل ہوتا ہے،خرچہ باپ پر لازم ہوتا ہے،نانی اگر نہ ہو تو بچہ  کی دادی کو بچہ کی پرورش کا حق ہوتا ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سسرال میں بچہ  کی نانی زندہ ہے اور بچہ  نانی کی پرورش میں ہے توبچہ کے والد اور بچہ کے دادا دادی کو چاہیے کہ وہ بچہ کو  سات سال تک بچہ کی نانی سے نہ لیں،اور اگربچہ کی نانی  کا انتقال ہوچکا ہے تو سسرال والوں کو چاہیے کہ وہ مذکورہ بچہ اس کی دادی کے حوالے کردیں،نیز بچہ کو مستقل اپنے پاس رکھنا اور والد سے ہمیشہ کے لیے دور کردینا ناجائز ہے،نانی کی پرورش کے دوران بچہ کا والد بچے سے وقتاً فوقتاً  ملنے کا حق دار ہے،بصورتِ دیگر والد کو قانونی کاروائی کا حق حاصل ہے۔

1)"البناية شرح الهداية" میں ہے:

"قال: (وإذا مات الزوجان وقد سمى لها مهرا فلورثتها أن يأخذوا ذلك من ميراث الزوج، وإن لم يكن سمى له مهرًا فلا شيء لورثتها عند أبي حنيفة. وقالا: لورثتها المهر في الوجهين) معناه المسمى في الوجه الأول ومهر المثل في الوجه الثاني، أما الأول؛ فلأن المسمى دين في ذمته وقد تأكد بالموت فيقضى من تركته، إلا إذا علم أنها ماتت أولا فيسقط  نصيبه من ذلك. وأما الثاني فوجه قولهما أن مهر المثل صار دينا في ذمته كالمسمى فلا يسقط بالموت كما إذا مات أحدهما. ولأبي حنيفة أن موتهما يدل على انقراض أقرانهما فبمهر من يقدر القاضي مهر المثل.

م: (وإذا مات الزوجان وقد سمى لها مهرا) ش: أي والحال أن الزوج قد سمى للمرأة مهرا م: (فلورثتها أن يأخذوا ذلك) ش: أي المسمى م: (من ميراث الزوج) ش: إنما يأخذ الورثة جميع المسمى من ميراث الزوج إذا ماتا معا، أو لم يعلم سبق أحدهما، أو علم أن الزوج مات أولا، لأن المسمى دين في الذمة وقد تقرر بالموت، وإن علم أن المرأة ‌ماتت أولا يسقط من المهر قدر نصيب الزوج من التركة؛ لأنه ورث دينا على نفسه على ما يجيء الآن."

(کتاب النکاح، باب المھر،مات الزوجان وقد سمى لها مهرا5/ 197،ط: دار الكتب العلمية)

 

2)"رد المحتار على الدرالمختار"میں ہے:

"(تثبت للأم)....(ثم) أي بعد الأم بأن ماتت، أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الأم) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الأب وإن علت) بالشرط المذكور .....(ثم الأخت لأب وأم ثم لأم) لأن هذا الحق لقرابة الأم (ثم) الأخت (لأب) ثم بنت الأخت لأبوين ثم لأم ثم لأب (ثم الخالات كذلك) أي لأبوين، ثم لأم ثم لأب، ثم بنت الأخت لأب ثم بنات الأخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الأم كذلك، ثم خالة الأب كذلك ثم عمات الأمهات والآباء بهذا الترتيب؛ ثم العصبات بترتيب الإرث، فيقدم الأب ثم الجد ثم الأخ الشقيق، ثم لأب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه. وإذا اجتمعوا فالأورع ثم الأسن، اختيار سوى فاسق ومعتوه وابن عم لمشتهاة وهو غير مأمون، ثم إذا لم يكن عصبة فلذوي الأرحام، فتدفع لأخ لأم ثم لابنه ثم للعم للأم ثم للخال لأبوين ثم لأم برهان وعيني بحر، فإن تساووا فأصلحهم ثم أورعهم ثم أكبرهم، ولا حق لولد عم وعمة وخال وخالة لعدم المحرمية."

(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:564، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں