بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کی اجازت لیے بغیر میکے جاکر واپس نہ آنے کا حکم


سوال

میاں بیوی میں ناچاقیاں ہوگئی اور بیوی میکے میں چلی گئی،اب وہ جھوٹ بول کر اپنے آپ کو صاف بتلارہی ہے اور شوہر کو قصوروار ٹھہرارہی ہے، کافی سمجھانے کے باوجود پھر بھی الٹی بات ،ہر بات پر میکے میں شوہر کو بےعزت کرواتی ہے،برداشت کی حد تجاوز کرگئی ہے۔ 

اب پوچھنا یہ ہےکہ "سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 81 اور 82 (وَقُلْ ‌جاءَ ‌الْحَقُّ وَزَهَقَ الْباطِلُ إِنَّ الْباطِلَ كانَ زَهُوقاً(81)وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ وَلا يَزِيدُ الظَّالِمِينَ إِلَاّ خَساراً(82)کی آیت دم کرکے پانی پلانے سے کوئی جانی نقصان پہنچے گا ؟ یا کوئی اور وظیفہ ہے جو جھوٹ کو ثابت کریں جب کہ ہر بات پر میں صلح کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں ؟

جواب

واضح رہے کہ  بیوی پر شوہر کی اطاعت اور اس کے جائز مطالبات ماننا لازم ہے، ورنہ گناہ گار ہوگی، بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرنا، اس کو تکلیف پہنچانا، اور اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، اور عورت کا  بلاوجہ شوہر سے ناراض ہوکر میکہ میں  رہنا اور شوہر کے بلانے کے باوجود نہ آنا  سخت گناہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں  ایسی عورت کے بارے میں وعیدیں آئی ہیں، چناں چہ میاں بیوی کے رشتے میں شریعت نے شوہر کو بڑا درجہ اور اہمیت دی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بالفرض اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔"

لہذا صورتِ مسئولہ میں بیوی کا شوہر کی نافرمانی کرنا اور اس کے اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا اور میکے میں بغیر کسی عذر کے بیٹھ کر شوہر کے بلانے کے باوجود نہ آنا جائز نہیں ہے، اس پر لازم ہے کہ شوہر کی اطاعت کریں اور اس کے بلانے پرخاندان میں جھوٹ بولے بغیر واپس آجائے،ورنہ گناہ گار ہوگی۔

نیز سائل کو چاہیےاگر بیوی پھر بھی بضد رہے تو سائل کو چاہیے کہ  دونوں خاندانوں کے معزز افراد کو درمیان  میں ڈال کر افہام وتفہیم سے اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرے، اور اگر اس سے بھی بات نہ بنے اور سائل اسے اپنی زوجیت سے ختم کرنا چاہے، تو پاکی کی حالت میں ایک طلاق دے کر چھوڑ دے، پھر اگر وہ عدت ختم ہونے سے پہلے اپنے مذکورہ افعال سے توبہ کرکے رہنا چاہے تو رجوع کی  بھی گنجائش ہوگی۔

اور سائل کے سسرال والوں کوچاہیے کہ وہ اپنی بیٹی سے اس کی بات  کے ثبوت کا مطالبہ کریں، اگر وہ ثبوت پیش نہیں کرسکے تو اس کی بات پر کوئی توجہ نہ دیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کسی کے حوالے سے یہ معلوم ہوجاتا کہ وہ دروغ گو ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں کدورت بیٹھ جاتی اور اس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل صاف نہیں ہوتا، جب تک یہ معلوم نہ ہوجاتا کہ اس نے اللہ سے اپنے گناہ کی نئے سرے سے توبہ نہیں کرلی ہے۔ (مسند احمد، بحوالہ احیاء العلوم، ج:۳، ص:۲۰۹)

 جھوٹ کو ثابت کرنے والے وظائف کو تلاش کرنے سے بہتر یہ ہے کہ سائل بیوی کی محبت حاصل کرنے کے لیے مندرجہ ذیل وظائف کا اہتمام کرے:

1)پنج وقتہ نماز کا اہتمام کیجیے، روزانہ دو رکعت صلاۃ الحاجۃ کی نیت سے پڑھ کر دل سے اصلاحِ احوال کی دعا کریں، اللہ تعالیٰ ضرور راہیں کھول دیں گے۔

2)قرآنِ کریم کی اس آیتِ مبارکہ ﴿وَ اَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِمْ ۚ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّا اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ اِنَّهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾کا ہر فرض نماز کے بعد 11بار وِرد کرکے صدقِ دل سے دعا کریں، اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے دلوں کو جوڑ دیں گے۔ 

3)نیز  عشاء کی نماز کےبعد  1400  بار ’’یَا وَدُوْدُ‘‘ پڑھنے کا اہتمام کریں۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: (أريت النار فإذا ‌أكثر ‌أهلها النساء، يكفرن). قيل: أيكفرن بالله؟ قال: (يكفرن العشير، ويكفرن الإحسان، لو أحسنت إلى إحداعن الدهر، ثم رأت منك شيئا، قالت: ما رأيت منك خير قط)."

(كتاب الإيمان، باب: كفران العشير، ج: 1، ص: 19، رقم: 29، ط: دار اليمامة - دمشق)

ترجمہ: "حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں :میں نے جہنم کو دیکھا تو میں نے آج جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا اور میں نے اس (جہنم) میں عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ پایا۔ لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے رسول ﷺ وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے بتایا کہ ان کے کفر کی وجہ سے، کہا گیا کہ کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:وہ خاوند کی نافرمانی کرتی ہیں اور احسان فراموشی کرتی ہیں، اگر آپ ان میں سے کسی کے ساتھ زمانہ بھر احسان کریں ، پھر وہ آپ میں کوئی ناگوار بات دیکھ لیں تو کہتی ہے میں نے تجھ میں کبھی خیر نہیں دیکھی۔"

مشکاۃ المصابیح میں ہے:   

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌لو ‌كنت ‌آمر ‌أحدا أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها» . رواه الترمذي."

(‌‌كتاب النكاح، ‌‌باب عشرة النساء، ‌‌الفصل الثاني، ج: 2، ص: 972، رقم: 3255، ط: المكتب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌وحقه ‌عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.

(قوله في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به ط."

(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج: 3، ص: 208، ط: سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌وعليها أن تطيعه في نفسها، وتحفظ غيبته؛ ولأن الله عز وجل أمر بتأديبهن بالهجر والضرب عند عدم طاعتهن، ونهى عن طاعتهن بقوله عز وجل {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] ، فدل أن التأديب كان لترك الطاعة، فيدل على لزوم طاعتهن الأزواج."

(كتاب النكاح، فصل وجوب طاعة الزوج على الزوجة، ج: 2، ص: 334، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة.

وفي الرد: (قوله لا يجب على الزوج تطليق الفاجرة) ولا عليها تسريح الفاجر إلا إذا خافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس أن يتفرقا اهـ مجتبى والفجور يعم الزنا وغيره وقد «قال - صلى الله عليه وسلم - لمن زوجته لا ترد يد لامس وقد قال إني أحبها: استمتع بها» اهـ ط."

(كتاب الحظر والإباحة، ج: 6، ص: 427، ط: سعید)

وفيه أيضاً:

"(قوله: للشقاق) أي لوجود الشقاق وهو الاختلاف والتخاصم. وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع. اهـ. ط، وهذا هو الحكم المذكور في الآية، وقد أوضح الكلام عليه في الفتح آخر الباب."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 3، ص: 441، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100677

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں