بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسہ کی آمدنی سے غیر طالب علم یتیم بچوں کا خرچہ پورا کرنے کا حکم


سوال

ایک دینی مدرسہ ہے جس کے بانی کے انتقال کے بعد بیٹے مہتمم بنے،  اور کچھ عرصے بعد ان کا بھی انتقال ہوا، جس کے پانچ بچے نابالغ یتیم رہ گئے، ان بچوں کا دادا اور چچا نہیں ہے، ماں اور نانی، اور دادا کے بھائی ہیں، جو ان بچوں کی کفالت نہیں کرسکتے، مدرسہ کے کچھ کمرے ہیں جو کرایہ پر دیے گئے ہیں، جن کی کچھ آمدنی بھی آتی ہے، تو کیا موجودہ مہتمم کے لیے گنجائش ہے کہ وہ اس آمدنی سے بچوں کی پرورش کرے؟ اگر نہیں کرسکتا تو اب تک مذکورہ آمدنی سے جتنی پرورش کی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر اس آمدنی سے بچوں پر رقم خرچ نہیں کیا جاسکتا تو کیا مہتمم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنی تنخواہ بڑھاکر اس میں سے بچوں پر خرچ کرے، کیا یہ حیلہ درست ہے؟برائے کرم راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  مدرسہ کے کمروں کی آمدنی کا مصرف مدرسہ اور اس کے مصالح ہی ہے، مدرسے کے علاوہ اس آمدنی کا استعمال جائز نہیں ہے، لہذا مدرسہ کے کمروں سے حاصل ہونے والی آمدنی مدرسہ اور اس کے مصالح ہی پر خرچ کرنا ضروری ہے، اس رقم سےسابقہ مہتمم کے یتیم بچوں کی پرورش کا خرچہ کرنا درست نہیں ہے، اور نہ ہی مذکورہ بچوں کی پرورش کا خرچہ پورا کرنے کے لیے مہتمم صاحب کو از خود اپنی تنخواہ میں اضافہ کرنا جائز ہے،اب تک جتنا خرچہ مذکورہ آمدنی سے کیا گیا ہے اس کے بقدر رقم مدرسہ میں جمع کرنا ضروری ہے، البتہ بچوں کی پرورش کا خرچہ بچوں کے دوسرے قریبی رشتہ دار نہ ہونے کی صورت میں بچوں کی والدہ اور  دادا کے بھائیوں پر لازم ہے، اگر دادا کے بھائی مذکورہ خرچہ برداشت نہیں کرسکتےتو والدہ ہی کسی جائز ذریعے سے اپنے بچوں کا خرچہ پورا کرے ۔

فتاویٰ شامی (الدرّ المختار وردّالمحتار) میں ہے:

"(ويبدأ من غلته بعمارته) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم. 

(قوله: ثم ما هو أقرب لعمارته إلخ) أي فإن انتهت عمارته وفضل من الغلة شيء يبدأ بما هو أقرب للعمارة وهو عمارته المعنوية التي هي قيام شعائره قال في الحاوي القدسي: والذي يبدأ به من ارتفاع الوقف أي من غلته عمارته شرط الواقف أولا ثم ما هو أقرب إلى العمارة، وأعم للمصلحة كالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسة يصرف إليهم إلى قدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخرالمصالح، هذا إذا لم يكن معينا فإن كان الوقف معينا على شيء يصرف إليه بعد عمارة البناء اهـ قال في البحر والسراج بالكسر: القناديل ومراده مع زيتها والبساط بالكسر أيضا الحصير، ويلحق بهما معلوم خادمهما وهما الوقاد والفراش فيقدمان وقوله إلى آخر المصالح: أي مصالح المسجد يدخل فيه المؤذن والناظر ويدخل تحت الإمام الخطيب لأنه إمام الجامع اهـ ملخصا ثم لا يخفى أن تعبير الحاوي بثم يفيد تقديم العمارة على الجميع كما هو إطلاق المتون فيصرف إليهم الفاضل عنها خلافا لما يوهم كلام البحر نعم كلام الفتح الآتي يفيد المشاركة ويأتي بيانه فافهم".

(کتاب الوقف، مطلب يبدأ من غلة الوقف بعمارته، ج:4، ص:367، ط:ایج ایم سعید)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) تجب أيضا (لكل ذي رحم محرم صغير أو أنثى) مطلقا (ولو) كانت الأنثى (بالغة) صحيحة (أو) كان الذكر (بالغا) لكن (عاجزا) عن الكسب (بنحو زمانة)كعمى وعته وفلج، زاد في الملتقى والمختار: أو لا يحسن الكسب لحرفة أو لكونه من ذوي البيوتات أو طالب علم (فقيرا) حال من المجموع بحيث تحل له الصدقة ولو له منزل وخادمعلى الصواب بدائع (بقدر الإرث) - {وعلى الوارث مثل ذلك} (و) لذا (يجير عليه) .

(قوله بقدر الإرث) أي تجب نفقة المحرم الفقير على من يرثونه إذا مات بقدر إرثهم منه (قوله {وعلى الوارث مثل ذلك} أي مثل الرزق والكسوة التي وجبت على المولود له فأناط الله تعالى النفقة باسم الوارث فوجب التقدير بالإرث".

(کتاب النکاح، باب النفقة، مطلب في نفقة الأصول، ج:3، ص:627، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100635

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں