بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 ربیع الاول 1446ھ 19 ستمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، والدین، 3 بیٹے او دو بیٹیوں میں میراث کی تقسیم


سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا،اس کے ورثاءمیں والدین دو بیوائیں ،پہلی بیوی سے ایک بیٹا دو بیٹیاں ہوئیں، دوسری سے دو لڑکے پیدا ہوئے ۔

سوال یہ ہے کہ ان مذکورہ ورثاء میں میراث کیسے تقسیم ہوگی؟

مرحوم نے ترکہ میں صرف ایک مکان چھوڑا ہے۔

نوٹ:پہلی بیوی کا انتقال مرحوم سے پہلے ہوا ہے۔

جواب

 مرحوم  کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو کل ترکہ سے  قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے  باقی کل  منقولہ و غیر منقولہ ترکہ  کو 192حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 32 حصے مرحوم کے والد کو،32 حصے مرحوم کی والدہ کو،24  حصے   مرحوم کی زندہ بیوہ کو،  26 حصے  ہر  ایک بیٹے کو اور 13  حصے  ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔مرحوم کی جس بیوی کا مرحوم سے پہلے انتقال ہوچکا ہے اس کا مرحوم کی جائیداد میں شرعا حصہ نہیں ہوگا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت:192/24

والد والدہبیوہبیٹابیٹابیٹابیٹی بیٹی
44313
3232242626261313

یعنی اگر کل ترکہ سو روپے ہو تو والد  کو 16.67 روپے،والدہ  کو 16.67 روپے،بیوہ کو 12.5  روپے،13.54 روپے  ہر ایک بیٹے کو ،6.77 ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

فقط وااللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100823

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں