بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ والدہ اور بہن بھائیوں میں تقسیم میراث


سوال

میرے بھائی کا انتقال ہوچکاہے،جس کی اولاد نہیں تھی اور والد کا انتقال اس سے پہلے ہوچکاہے،ورثاء میں ایک بیوہ،والدہ،نوبھائی اور دوبہنیں ہیں،اس کی ملکیت میں ایک گھر تھاجس میں وہ رہائش پذیر تھا،مگر تھا وہ گھر ہماری والدہ کے نام پر،صورت تقسیم کیا ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم بھائی کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے کفن دفن کا خرچہ نکالنے کے بعد، اگر مرحوم پر کوئی قرض ہو تو اس کوکل مال سے ادا کرنے کے بعد ،اور اگرمرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو باقی مال کے ایک تہائی  حصے  میں سے نافذ کرنے کے بعد ،باقی کل  ترکہ (منقولہ اور غیر منقولہ)کو 240حصوں میں تقسیم کر کے40حصےمرحوم کی  والدہ کو ،60حصےمرحوم کی بیوہ کو،14حصےمرحوم کے  ہر ایک بھائی کو، اور 7حصےمرحوم کی ہر یک بہن کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہو گی :

مرحوم۔۔۔۔240/12

والدہبیوہبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبھائیبہنبہن
237
406014141414141414141477

فیصدی اعتبار سےصورت تقسیم یوں ہو گی:

کل ترکہ کو 100حصوں میں تقسیم کر کے مرحوم  کی والدہ کو16.666666فیصد،مرحوم کی بیوہ کو25فیصد،مرحوم کے  ہر ایک بھائی کو 5.833333فیصد،مرحوم کی ہر یک بہن کو 2.916666فیصدملےگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101435

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں