ایک عورت جس کی عمر 60 سے متجاوز ہے، شوہر کا انتقال ہوچکا ہے، شوہر کی پنشن وصول کرتی ہے، جس سے اس نے 5 لاکھ روپے جمع کرلیے ہیں، (یاد رہے کہ اپنی دوا ، بیماری، کپڑے جوتے کا خرچ بھی اسی میں کرتی ہے، بیٹوں سے نہیں لیتی)۔ اور اس کے پاس 4تولہ سونا بھی ہے، کیا اس پر زکوٰۃ دینا ہوگا ؟اور کس حساب سے دینا پڑے گا ؟اور کسی مدرسہ میں دے سکتی ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت جس کی ملکیت میں 5 لاکھ روپے اور 4 تولہ سونا ہے، صاحبِ نصاب ہے، لہٰذا سال مکمل ہونے کے بعد اس کی زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہے، اگر صاحبِ نصاب ہونے کی تاریخ معلوم نہیں ہے تو اندازے سے چاند کے مہینوں کے اعتبار سے سال کا ایک دن متعین کرلیں، پھر ہر سال اس دن اپنے پاس موجود سونا، چاندی، اور نقدی وغیرہ کا حساب کرلیں اور اس کا ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں ادا کردیں۔
نیز اگر مذکورہ خاتون نے گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ نہیں دی ہے حالاں کہ ان کے پاس سونا، چاندی،نقدی ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر رقم تھی تو ان پر گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی لازم ہوگا، اگر ہر سال کا حساب صحیح طرح نہیں معلوم تو اندازے سے حساب لگانے کی کوشش کریں اور اندازے سے کچھ زیادہ زکوٰۃ ادا کریں۔
نیز زکوٰۃ نکالنے سے مال میں برکت ، بڑھوتری اور حفاظت ہوتی ہے، جب کہ اس کے برعکس زکوٰۃ نکالی جائے تو مال میں بے برکتی، کمی ہوتی ہے، اس لیے مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ وہ اپنے مال کی زکوٰۃ ہر سال ادا کردیا کریں۔
باقی جن مدارس میں زکوٰۃ کا نظم موجود ہے مثلًا وہاں مستحق طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہوں وغیرہ ، تو ایسے مدارس میں زکوٰۃ کی رقم دینا جائز ہے، مدارسِ اسلامیہ دوسرے لوگوں کی شرعی راہ نمائی میں مصروفِ عمل ہیں، اربابِ مدارس کو زکاۃ کے مسائل اور ان کے مصارف کا خوب علم ہوتا ہے، اور الحمد للہ اہلِ حق کے مدارس ان مسائل کی رعایت رکھتے ہیں۔ لہذا مدرسے میں زکاۃ دینے سے ادا ہو جاتی ہے، البتہ زکاۃ دینے والے کو دیتے وقت بتادینا چاہیے کہ یہ زکاۃ کی رقم ہے، تاکہ منتظمین اسے زکاۃ کے مصارف میں ہی صرف کریں۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109201333
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن