بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کا مرحوم شوہر کے مکان میں تاحیات رہائش اور بیوہ، بھائی اور بہنوں میں ترکہ کی تقسیم


سوال

میرے ماموں کی وفات 4 جنوری 2021 ء کو ہوئی، ان کے نام ایک عدد فلیٹ ہے، اور ان کی کوئی اولاد نہیں ہے، اس فلیٹ کی مالیت تقریبا ً  =/8000000  (اسّی لاکھ روپے) ہے، کیا میری ممانی کو اس فلیٹ میں شرعاً تاحیات رہائش کا حق حاصل ہے یا پھر اس فلیٹ کو بیچ کر رقم ورثاء میں شرعاً تقسیم کرنا  لازمی ہے؟  ورثاء میں چار (4)  بہنیں اور ایک  بھائی  بھی ہیں، ممانی کے نام ایک عدد  پلاٹ  ایک رہائشی اسکیم میں بھی ہے، جس کی مالیت تقریباً ایک کروڑ روپے کے قریب ہے۔شرعی راہ نمائی فرمادیں

جواب

واضح رہے کہ  کسی شخص کے انتقال کے بعد  اس کے ترکہ میں اس کے تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے اور وہ سب ترکہ ان کے درمیان مشترک ہوجاتا ہے، اگر مرحوم کے انتقال کے بعد تمام ورثاء باہمی رضامندی سے متروکہ جائیداد   کو مشترک رکھنا چاہتے ہیں یا کسی ایک وارث کو رہائش اختیار کرنے کے لیے دیتے ہیں یا  کسی مصلحت  کی بنا پر  میراث کی فوری تقسیم نہیں کرتے تو یہ بھی درست ہے،  البتہ  اگر کوئی وارث اپنے شرعی حصے  کا مطالبہ کرے تو اس کا حصہ دینا   دیگر ورثاء پر لازم اور ضروری ہوجاتا ہے، اگر  چہ جائیداد فروخت کرنا پڑے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل کے ماموں کے انتقال کے بعد  ان کے تمام ترکہ میں  ان کے سب ورثاء کا حق متعلق ہوگیا ہے، مرحوم کی اولاد نہ ہونے  اور  والدین  کے حیات نہ ہونے  کی صورت میں  مرحوم کے بھائی اور بہن   بھی شرعاً اس کے وارث ہیں،  لہذا اگر وہ  ترکہ کی تقسیم کا اور اس میں اپنے حصہ کا مطالبہ کریں تو ان کو حصہ دینا ضروری ہوگا، اگر چہ اس کے لیے مکان کو فروخت کرنا پڑے،  بیوہ کو مرحوم کے متروکہ مکان میں دیگر ورثاء کی اجازت اور رضامندی کے بغیر تاحیات رہائش کا حق  نہیں ہے، البتہ اگر ورثاء راضی ہیں یا بیوہ دیگر ورثاء  کو ان کے حصہ کے بقدر رقم دے  کر ان کا حصہ خرید لے تو وہ اس مکان کی تنہا  مالک ہوجائے گی۔

باقی  سائل کے مرحوم ماموں کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ  ترکہ میں ان کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ، اگر ان کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ میں سے ادا کرنے کے بعد، اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی ترکہ میں سے نافذ کرکے باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو    8  حصوں میں تقسیم کرکے  2 حصے بیوہ کو، 2 حصے مرحوم کے بھائی کو اور ایک ، ایک حصہ  ہر ایک بہن کو ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت: 4/ 8

بیوہبھائیبہن بہن بہن بہن 
1               3
221111

یعنی مثلا ً 100 روپے میں سے 25 روپے مرحوم کی بیوہ کو، 25 روپے  بھائی کو اور 12.50 روپے ہر ایک بہن کو ملیں گے۔

باقی سائل کی ممانی کے نام جو رہائشی اسکیم میں پلاٹ ہے اگر  وہ  ان کا ذاتی ہے یا سائل کے ماموں نے  اپنی حیات میں  اپنی بیوی کو گفٹ کرکے  دے دیا تھا، اور اس کا قبضہ    اور اس میں تصرف کا اختیار بھی اس کو دے دیا تھا تو وہ پلاٹ  سائل کی ممانی کی ملکیت ہوگا، ترکہ میں تقسیم نہیں ہوگا، اور اگر سائل کے مرحوم ماموں نے صرف اپنی بیوی کے نام کیا تھا، گفٹ نہیں کیا تھا یا اس کا قبضہ واختیار  نہیں دیا تھا تو وہ   مرحوم کا ترکہ شمار ہوگا، اور ان کے تمام شرعی ورثاء میں شرعی حصص کے تناسب سے تقسیم ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہ ے:

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض."

(6 / 260، کتاب القسمة، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100305

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں